🌹 الحکمة انٹرنیشنل شعبہ دعوت
و تبلیغ کے زیر اہتمام 🌹
🌲 خواتین کے لیےایمان افروز
پروگرام 🌲
قران کا حکم حجاب عقلی شبہات اور ازالہ
🎤معلمہ :🎤
❣️معروف اسلامی سکالر ڈاکٹر فرات غضنفر صاحبہ حفظھا اللہ تعالٰی ❣️
📍 20 اکتوبر
بروز اتوار 📍
Part 01
عقلی شبہات سے مراد دنیا میں بڑے
بڑے لوگ جو اپنے آپ کو عقل مند سمجھتے ہیں :
یاد رکھیں! قرآن و سنتِ رسول سے ہٹ
کر عقل کسی چیز کا نام نہیں ہے۔ عقل وہ ہے جو قرآن اور سنتِ رسول کے مطابق ہو۔ اس
سے ہٹ کر شیطان کا راستہ اور بیوقوفی کا راستہ ہے، لیکن لوگ اپنے آپ کو دانشور
سمجھتے ہیں۔
حجاب ایک وسیع اصطلاح ہے، جس میں
تمام چیزیں آتی ہیں اور حیاداری کے تمام لوازمات شامل ہوتے ہیں۔آج کل دنیا آپ کے
سامنے حیاداری کے سوالات رکھتی ہے اور آپ کے سامنے مختلف فلسفے پیش کرتی ہے، تاکہ
پردے کے حوالے سے آپ کو قرآن سے گمراہ کیا جائے۔ آج کل کے لوگوں کو "ماڈرن
دور" کا حوالہ دے کر یہ کہا جاتا ہے کہ تم ہزاروں سال پرانی باتیں کر رہے ہو۔
اس قسم کے سوالات کے جواب میں بہت سے دین دار گھرانوں کے افراد خود کو بے بس پاتے
ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ:
دینی تعلیم کا
تصور بہت سے لوگوں میں بدل چکا ہے،یا گھروں میں دینی تربیت ہی موجود نہیں ہے،اگر
تربیت ہے تو وہ نماز، روزہ اور جائے نماز تک محدود ہے۔
بہت کم گھرانے ایسے ہیں جہاں دینی
تربیت وہ تصویر پیش کرتی ہے جو اسلام کی اصل روح ہے؛ جو پاکیزگی، تزکیہ نفس اور
معاشرتی اصلاح کا پیغام دیتی ہے۔آپ نے صرف نیک بن کر خود کو الگ نہیں کر لینا، اپنی
نمازیں پڑھتے رہنا، یا اپنی تسبیح گھماتے رہنا کافی نہیں ہے۔ آپ کو اپنے ہمسایوں
کے گھروں، گلی محلے، رشتہ داروں اور دوستوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ ان کے اخلاق
اور دینی تربیت کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے۔
یہ
ایک مشن ہے، اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کو نافذ
کرنے کی ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے۔ ہمیں کسی اور کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔
جتنی ہماری صلاحیت ہے، ہمیں خود آگے بڑھ کر اپنا حصہ ڈالنا ہے۔
ادارہ الحکمہ انٹرنیشنل نے ایک عمدہ مثال قائم کی ہے،
کہ بنیادی دینی تعلیمات کے ساتھ ساتھ، شیطان کے موجودہ دور کے چیلنجز کا سامنا
کرنے کے لیے خود کو تیار کرنا ضروری ہے۔ اور اس تیاری کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ کسی
بھی صورت میں قرآن و سنت سے ہمارا تعلق نہ ٹوٹے۔ دو ہزار سال پہلے اللہ کا رسول جو
پیغام لے کر آیا تھا، اسی سے جڑنا اور آج کے مسائل کو اس کی دی ہوئی تعلیمات کے تناظر میں دیکھنا ضروری ہے۔
یاد رکھیں! جب اللہ رب العالمین نے فرما دیا کہ آخری نبی آگئے ہیں اور آخری کتاب
نازل ہو چکی ہے، اب قیامت تک کچھ نیا نہیں آئے گا۔ تو یہ مت کہیے کہ یہ پرانے
زمانے کی بات ہے اور آج کے دور کی بات مختلف ہے۔
آپﷺنےفرمایا:
((بُعِثْتُ
أَنَا وَالسَّاعَةَ كَهَاتَيْنِ"، يَعْنِي إِصْبَعَيْنِ،))[1]
”میں اور قیامت
ان دو کی طرح بھیجے گئے ہیں۔ آپ کی مراد دو انگلیوں سے تھی۔“
یعنی میرے بعد اب صرف قیامت باقی ہے۔
یاد رکھیں! اب ہر زمانہ رسول اللہ ﷺ کا زمانہ ہے۔ آپ ﷺ آخری نبی ہیں اور اللہ تعالیٰ
فرماتا ہے کہ
((قَالَ
اللّٰهُ يَسُبُّ بَنُو آدَمَ الدَّهْرَ وَأَنَا الدَّهْرُ بِيَدِي اللَّيْلُ
وَالنَّهَارُ٩))[2]
”اللہ تعالیٰ
فرماتا ہے کہ انسان زمانہ کو گالی دیتا ہے حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں، میرے ہی ہاتھ
میں رات اور دن ہیں۔“
اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن قیامت تک
کے لیے نازل کیا گیا ہے اور اللہ کا آخری نبی آگیا ہے۔ لہٰذا جو احکامات نازل ہو
چکے ہیں، وہ اللہ رب العالمین کی طرف سے ہیں، جو زمین و آسمان کا مالک اور ہر چیز
سے واقف ہے۔
لہٰذا یاد رکھیں! یہ شیطان کا ہتھیار ہے جو اس نے عقل پسند لوگوں کے ہاتھ میں دیا ہوا
ہے، کہ "یہ آج کا زمانہ ہے،" لیکن یاد رکھیں، آج کا زمانہ کوئی نئی چیز
نہیں ہے۔ آج بھی وہی دو لشکر موجود ہیں، "حزب اللہ" اور "حزب الشیطان۔"چیزوں
کے بدلنے سے زمانہ نہیں بدلتا، زمانہ تب بدلتا ہے جب فطرتیں بدلتی ہیں۔ اگر زمانہ
بدلتا، تو یہ لشکر بھی بدلتے۔📍 زمانہ کبھی
نہیں بدلتا۔ 📍
احکامات حجاب واضح دو سورتوں سورۃ
الاحزاب اور سورۃ نور میں آئے ہیں ۔
سورۃ
الاحزاب پانچ ہجری میں نازل ہوئی، اور یہ وہ وقت تھا جب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ”بدر
کا معرکہ ہو چکا، احد کا معرکہ بھی ہو چکا، اور اس کے بعد غزوہ خندق بھی ہو چکا۔“
غزوہ خندق کو ہی غزوہ احزاب کہا جاتا ہے۔ غزوہ احزاب کے اختتام پر آپ ﷺ نے فرمایا،
"آج کے بعد قریش کبھی مدینہ پر حملہ آور نہیں ہوں گے۔ یہ ان کا آخری حملہ
تھا۔“قریش سمجھ گئے تھے کہ مسلمانوں پر قابو پانا اب ممکن نہیں رہا، اور میدانِ
جنگ میں جیتنا ان کے لیے ناممکن ہوتا جا رہا تھا۔ انہوں نے ہر محاذ پر شکست کا
سامنا کیا۔
غزوہ احزاب
کے بعد، قریش کو یہ بات اچھی طرح سمجھ آ چکی تھی کہ:
مسلمان
ناقابلِ تسخیر ہوتے جا رہے ہیں،
میدانِ جنگ
میں جیتنا اب ممکن نہیں رہا۔
قصہ آدم اور ابلیس
زمانہ کبھی نہیں بدلتا۔ آپ کا آج کا
دشمن، چاہے وہ ہندو ہو یا عیسائی، وہی ہتھیار استعمال کرتا ہے جو پہلے کے کافر
استعمال کرتے تھے: مسلمانوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنا، انہیں گمراہ کرنا، ان
کے اندر شکوک و شبہات پیدا کرنا، اور ان کے اخلاق و حیاء پر حملہ کرنا۔ جب انہوں
نے غور و فکر کیا، تو انہیں معلوم ہوا کہ وہ تعداد میں مسلمانوں سے زیادہ ہونے کے
باوجود کیوں ہار جاتے ہیں۔ان کے عقل مندوں نے انہیں یہ سمجھایا کہ اصل مسئلہ اخلاق
و کردار کا ہے:"تم شراب پینے والے ہو، زنا کاری کرنے والے ہو، بدلہ لینے والے
ہو، اور معاشرے میں فساد پھیلانے والے ہو۔"
دشمن اس بات کو جانتے تھے کہ جو شخص
اللہ کے دین پر ایمان لاتا ہے، اس کے اخلاق و کردار میں زمین آسمان کا فرق پیدا ہو
جاتا ہے۔ وہ حرام کاریوں سے بچنے والا، اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا، اور فضائلِ
اخلاق کو اپنانے والا ہو جاتا ہے۔ کل کے جھوٹے، آج کے سب سے بڑے صدیق بن جاتے ہیں۔
جب کوئی اللہ کے دین پر ایمان لاتا ہے تو اس کی سیرت و کردار بدل جاتے ہیں۔
کفار کے لوگوں نے سوچا کہ مسلمانوں
کو تو ہم میدانِ جنگ میں گرا نہیں سکتے، ان کے اخلاق پر وار کرو۔ ان میں کسی طرح
بے حیائی، فحاشی، اور گندگی ڈال دو۔ جیسے ہی ان کا اخلاق گرے گا، یہ بھی کمزور ہو
جائیں گے، اور ہم جب چاہیں ان کی گردنیں مروڑ دیں گے۔یہ ان کا اخلاق ہے کہ یہ اللہ
کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ یہ سینہ تان کر کھڑے ہوتے ہیں، یہ روزے رکھ کر میدان جنگ
میں آ جاتے ہیں۔ ہم اس اخلاق اور اس جذبے سے انہیں شکست نہیں دے سکتے۔ اس جذبے کو
قتل کرو۔
یہ یاد رکھیں! کہ آپ نے سورۃ البقرہ میں قصہ آدم اور ابلیس پڑھا ہے تو اس قصے کو بیان
کرتے ہوئے پہلے دن ہی اللہ تعالٰی نے بتا دیا کہ پہلا ابلیس اور آدم کا ٹکراؤ ہوا
اور ہوا یہ تھا کہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو جنت میں ان کی بیوی کے ساتھ
رکھا شیطان انہیں بہکانے میں کامیاب ہوا اور آدم علیہ السلام اس کے بہکاوے میں
آگئے اور یہ اللہ تعالیٰ کو منظور تھا اللہ تعالیٰ ایک آزمائش کر رہا تھا ۔
سورۃ البقرہ میں ہے کہ ان کے لباس اتر گئے ان(آدم اور حوا) کے ستر ایک دوسرے سے ظاہر ہو
گئے یہ واقعہ آپ کو بتاتا ہے جب بھی انسان شیطان کے پیچھے جائے گا پہلی چیز اس کے
اندر جو آئے گی وہ بے حیائی ہو گی ۔ آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے جب بنانا
تھا قرآن میں ہے کہ اللہ نے فرشتوں کو کہا کہ میں زمین پر خلیفہ بنانے والا ہوں
یہ جو لوگوں نے تماشے بنا رکھے ہیں
کہ اگر حضرت آدم علیہ السلام غلطی نہ کرتے تو زمین پر نہ اتارے جاتے، یہ بالکل بے
وقوفی کی بات ہے۔ قرآن کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: "مَیں زمین میں
خلیفہ بنانے والا ہوں"۔ اس کا مطلب ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو زمین کے لیے
ہی پیدا کیا گیا تھا، اور انہیں جنت میں آزمائش کے لیے رکھا گیا تھا، جیسے کوئی نئی
ایجاد لائبریٹری میں ٹیسٹ کی جاتی ہے تاکہ اس کی خوبیاں اور خامیاں معلوم کی جا سکیں۔
اسی طرح حضرت آدم علیہ السلام کو جنت میں اس لیے رکھا گیا تاکہ ان کا امتحان لیا
جا سکے کہ ان میں کون سی خوبیاں ہیں اور کہاں وہ دنیا کے معاملات میں مار کھائیں
گے، اور کہاں شیطان کے بہکاوے میں آجائیں گے۔
سبق
اس ایک قصے میں ہمارے لیے ایک بڑا
سبق ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام بھی شیطان کے بہکاوے میں آسکتے ہیں، اور اس بہکاوے
کے نتیجے میں جو چیز سامنے آئی وہ بے حیائی تھی۔ شیطان نے غلطی کی، اور حضرت آدم
علیہ السلام نے بھی غلطی کی کہ شیطان کی بات مان لی۔ دونوں سے غلطی ہوئی، لیکن ایک
پیغمبر بن گیا اور دوسرا ابلیس۔ اس کا فرق توبہ کے الفاظ تھے۔ حضرت آدم علیہ
السلام نے استغفار کیا، غلطی معاف ہو گئی، اور وہ پیغمبر بن گئے، جبکہ ابلیس نے
کہا کہ میں توبہ نہیں کروں گا۔
تو پہلے ہی دن ہمیں بتا دیا گیا کہ
اگر حضرت آدم علیہ السلام شیطان کے بہکاوے میں آئیں گے اور توبہ کا راستہ اختیار
کریں گے تو دوبارہ عروج آدمیّت پر پہنچ جائیں گے۔ اور اگر استغفار کا راستہ نہ پکڑیں
گے تو شیطان کے ساتھ پستی میں گرتے چلے جائیں گے۔
وما توفیقی الا باللہ...
◾الحکمہ انٹرنیشنل
[2] صحيح بخااری : 6181