Mutwatar or Aahad ka Taqaabli Mutala (Part 2)
Peace Center Peace Center
recent

ہیڈ لائنز

recent
random
جاري التحميل ...

Mutwatar or Aahad ka Taqaabli Mutala (Part 2)

 


 کیا اہل فن (محدثین کرام) کے ہاں خبر متواتر اور خبر آحاد کی تقسیم متنازع تقسیم ہے؟!
 [علمائے روایت قراء اور محدثین کے مناہج کی روشنی میں]
( Part : 2)
 

🎙️اسپیکر : فضیلة الشیخ ڈاکٹرحافظ حمزہ مدنی حفظہ اللہ
مدیر التعلیم جامعہ لاہور الاسلامیہ [رحمانیہ]
📍 الحکمة انٹرنیشنل لاہور،پاکستان

خبر متواتر اور خبر آحاد کی تقسیم

بِســـــــــــمِ ﷲِالرَّحمٰنِ الرَّحِيم

 [خبرِ صحیح کے درجات]

محدثین کے ہاں خبرِ صحیح  کے دو درجے ہیں

1. خبرِ مقبول بغیر محتف بالقرآئن

2. خبرِ مقبول محتف بالقرآئن

امام ابن حجر رح نے شرح نخبہ میں لکھا ہے، سیوطی رح نے تدریب الراوی میں لکھا ہے کہ:

” خبر واحد المحتف بالقرآئن “ سے وہ علم حاصل ہوتا ہے جو علم تواتر سے حاصل ہوتا ہے- ابن صلاح نے لکھا ہے کہ زیادہ سے زیادہ اس حدیث کو خبر واحد المحتف بالقرآئن کہا جا سکتا ہے وہ یہ ہے :|من کذب علی متعمدا فلیتبوا | اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اس حدیث کے پہلے طبقے میں 62 صحابہ ہیں جنہوں نے اسے نقل کیا ہے لیکن کہتے ہیں کہ اگر اس کو بھی آپ صحیح معنوں میں لیں تو تمام طبقاتِ سند میں یہ عدد نہیں ملتا

[ مضبوط ترین روایات کے حوالے سے دو موقف]

 [1]    بعض  کہتے ہیں اگر آپ نے کسی حدیث کو مضبوط ترین سند والی روایت کہنا ہے تو وہ مَن کَذَب... ہے

[2]  بعض کے مطابق چھ روایات ہیں جو مضبوط ترین ہیں :

 1. انما الاعمال بالنيات [اس روایت کے مجموعی طور پر طرق بہت زیادہ ہیں، اس کے الفاظ تک محفوظ ہیں مختلف روایتوں کو دیکھا جائے تو سب میں جو مشترک لفظ ملتا ہے وہ ہے انما الاعمال بالنيات... تواترِ لفظی بھی یہی ہے ]

2. من کذب علی متعمدا فلیتبوا

3. انزل القرآن علی سبب... 

https://youtu.be/9_FXkfwfFTU

 [اس کی سند گوگل سے نکالی جائے تو صرف اس لفظ انزل القرآن علی سبب کے تقریبا 700 طرق تو صرف  گوگل پر موجود ہیں، یہ حدیث مختلف حدیث کی کتابوں میں ایک سند سے نہیں سینکڑوں سندوں سے آرہی ہے ]    یہ تواتر سندی تو نہیں بنتی لیکن اگر مجموعی طور پر زیادہ سے زیادہ اس درجے پر احادیث کو دیکھ جائے تو یہ حدیث زیادہ طرق والی  ہے ۔

 [ علم قرآءات میں تواتر کی مثال ]

  آپ قرآن پاک کو لے لیں روایت امام حفص  رح سے نقل ہو رہی ہے - امام حفص کی قرآت ہر زمانے میں، ہر طبقے میں کروڑوں عربوں لوگ پڑھ رہے ہیں. پاکستان کے عوام، سعودیہ عرب کے لوگ، خلیج کے ممالک ڈال لیں سارے ملا کر دنیا میں تقریبا 1 عرب لوگ روایت حفص پڑھ رہے - اب یہ بات ذہن نشین رہے ! سند کے اعتبار سے امام حفص خود خبر واحد ہے لیکن ہر دور میں، ہر طبقے کے اتنے لوگ اس روایت کے حافظ ملتے ہیں کہ ” لا یود ولا یحصب “ اب کہنے کو یہ خبر متواتر کی مخصوص تعریف ہر نہیں اترتی لیکن جس کو محدثین متواتر کہتے ہیں یہ اس پر اترتی ہے -

[امام سیوطی کا موقف]

سیوطی کی کتاب ہے : [الاظھار المتناثرۃ فی الاخبار المتواترہ] سیوطی خود مانتا ہے کہ متواتر کی تعریف کا مصداق کوئی نہیں ہے لیکن سیوطی نے متواتر حدیثوں پر پوری کتاب لکھ دی ہے - سیطوی نے اس کتاب میں ” لا نکاح الا  بولی “ اس حدیث کو متواتر قرار دیا ہے حالانکہ بالاتفاق یہ حدیث خبر واحد ہے - اس حدیث کو متواتر اس لیے قرار دیا کیونکہ اس کا مضمون تواتر سے قدرے مشترک ہے اس کا مضمون اتنی بار آیا ہے کہ اسے متواتر قرار دیا ہے -

[  تواتر اشتراک کی اصطلاح]

تواتر اشتراک یعنی روایت تواتر سے قدرے مشترک ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے آپ کتاب الصلوۃ پڑھتے ہیں سینکڑوں احادیث آتی ہیں ہر حدیث میں مختلف چیزوں کا ذکر ہے

* کسی میں رکوع کا ذکر ہے

* کسی میں قیام کا ذکر ہے

* کسی میں جلسہ استراحت کا ذکر ہے

* کسی میں قرآءت کا ذکر ہے

ہزاروں احادیث ہیں ساری احادیث کا ایک قدر مشترک ثابت ہے وہ یہ ہے کہ دین میں نماز کوئی چیز ہے، نماز کا وجود ہر حدیث ثابت کر رہی ہے- اقامت صلوۃدین کا  ایک اہم رکن ہے جس کی یہ ساری تفصیلات ہیں اور ہر حدیث ایک چیز کو مشترکہ طور پر ثابت کر رہی ہے وہ چیز یہ ہے کہ نماز دین کے اندر ایک مستقل درجے کا رکن ہے -  اور یہی قرآن بھی ثابت کر رہا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے| اقیموا الصلوۃ واتوا الزکوۃ [ نہایت اہم اور بار بار پڑھی جانے والی حدیث کی مثال]انما الاعمال بالنيات کی بات جو پہلے بھی ہوئی ہے محدثین کے ہاں اس کی 700 سندیں ہیں لیکن یہ حدیث اپنی اساس میں غریب ہے -

1. پہلے طبقے میں بھی غریب ہے

2. دوسرے طبقے میں بھی غریب ہے

📌   خبر واحد میں تو یہ حدیث غریب کے بعد عزیز کیا مشہور میں بھی نہیں ہے یوں تو  یہ حدیث خبر واحد ہے لیکن محدثین نے اسے تواتر کی بڑی ترین اقسام میں شمار کیا ہے 

 [ تواتر کی بحث کا آغاز اور اس کا تصور]

 ابن الصلاح پہلا آدمی ہے جس نے تواتر کی بحث کا اشارہ کیا ہے اس سے پہلے  ہی کتابوں میں تواتر کی بحث نہیں ملتی- ابن  الصلاح کے الفاظ ہیں” من الخبر المشہور الحدیث المتواتر “ بعض احادیث جو تواتر کی  فنی تعریف کو نہیں پہنچتیں لیکن ان کے طرق اتنے زیادہ ہیں کہ وہ نہایت مشہور ہو گئی ہیں –

 ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے یہ تک دعویٰ کیا ہے کہ دین کا کوئی بنیادی مسئلہ ایسا نہیں جو تواتر سے ثابت نہ ہو

*  یعنی نماز کا مسئلہ    * زکوۃ کا مسئلہ    *  کلیات دین / ضروریات دین    ہر ایک تواتر سے  ثابت ہے

 [ مثال سے سمجھیے ]

بلڈنگ کی جو بنیاد ہوتی ہے وہ پکی بات ہے زیادہ مضبوط ہو گی اس کے بعد اوپر جاتے جاتے ہلکی چیزیں بھی کام دے جائیں گی اسی طرح امام ابن تیمیہ کہتے ہیں دین کے جو قوائد ہیں، دین کے جو أساسات ہیں ہر اساس درجہ تواتر سے ثابت ہے معمولی درجے کا بھی شک نہیں ہے

 [ اصولی بات]

ابن تیمیہ رح نے  اصول قرار دیا ہے ”جو بندہ مسلمات دین اور ضروریات دین کا انکار کر دے وہ کافر ہے “ اسی پر محدثین کے ہاں اصول ہے :

* جو بندہ متواتر حدیث کا انکار کرے وہ کافر ہے

* جو خبر واحد کا انکار کر دے اس کو شک کا فائدہ دیا جائے گا کیونکہ خبر واحد کے بارے میں محدثین کی دو رائے ہو سکتی ہیں - جیسے: ایک محدث اگر کسی حدیث کو صحیح کہہ رہا ہے تو دوسرا اسی حدیث کو ضعیف کہتا دکھائی دیتا ہے - ایساممکن ہے

✍🏻متواتر وہ چیز ہوتی ہے جس کے بارے میں سب کا اتفاق ہوتا ہے

 [حافظ عراقی رح کا موقف]

 حافظ عراقی رح جو  ابن حجر رح کے استاد ہیں امام ابن حجر نے 10 سال ان کی صحبت میں گزارے ہیں اور فن کی پختگی پیدا کی ہے - حافظ عراقی مقدمہ ابن صلاح کے شارح ہیں ان  کی شرح کا نام ہے [ التقلید والایضاء] انہوں نے لکھا ہے کہ محدثین کے ہاں تواتر کی فنی تعریف کے ابن صلاح قائل نہیں ہیں - لیکن وہ کہتے ہیں ابن صلاح تواتر کے قائل ہیں –

🌀... اس کے نیچے انہوں نے مثالیں دی ہیں  :

کہتے ہیں ابن الصلاح کے ہاں تواتر ایسے سمجھیں جیسے مسئلہ مسح علی الخفین کی روایتیں متواتر ہیں [حافظ عراقی نے باقاعدہ یہ لفظ لکھا ہے ] مسئلہ الخفین کے بارے میں کافی احادیث ہیں اور ہر حدیث خبر واحد ہے لیکن وہ روایتیں اتنی کثرت سے آئی ہیں کہ مسئلہ الخفین کا مسئلہ دین کے اندر ایسا مسئلہ بن گیا ہے جو متواترات میں سے ہے ۔* اسی طرح حافظ عراقی نے لکھا ہے کہ دعا کے اندر ہاتھ اٹھانے کا مسئلہ متواترات میں سے ہے - معلوم ہوا کہ جو روایتیں کثرت سے پائی جائیں وہ متواتر ہو سکتی ہیں لازمی نہیں کہ وہ متواتر حدیث کہ فنی  تعریف پر اترتی ہوں

[تواتر کے بارے میں 2 تصور]

* تواتر کے بارے میں ایک عامیانہ تصور ہے

* اور ایک تواتر کا تصور وہ ہے جو  محققین آئمہ حدیث کا ہے اس موضوع پر آصف ہارون جو پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر چکے ہیں ان کی کتاب ہے، یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تواتر کا کیا مفہوم ہوتا ہے اور ثبوت قرآن میں کون سا تواتر قرآءت حضرات کی مراد ہے ۔

 [ابن تیمیہ،ابن قیم، ابن حجر اور امیر صنعانی رحمھما اللہ  کا موقف ]

 ابن تیمیہ، ابن قیم اور ابن حجر تینوں تواتر کے قائل ہیں - امیر سنانی نے اپنی کتاب توضیح الافکار میں انہوں نے بہت اچھی بحث کی ہے ۔ عبدﷲ محدث روپڑی رح کہتے ہیں: فن حدیث کی سب سے  کوئی مغلب اور گہری کتاب ہے تو وہ توضیح الافکار ہے جس نے اصول حدیث کی یہ کتاب نہیں پڑھی وہ بندہ اصول حدیث کے اندر صرف مصطلحات کو رٹا مارتا ہے جس کو مصطلحات کے تصورات اور concepts پر بحث کرنی ہے تو وہ توضیح الافکار ضرور پڑھے ۔

    صنعانی نے اس کتاب میں یہ بحث کی ہے وہ لوگ جنہوں نے تواتر کو عدد پر محصور کر دیا ہے یہ غافل لوگ ہیں - کہتے ہیں عدد کے تواتر کی حالت تو ہے کہ کبھی چار افراد سے تواتر حاصل ہوجاتا ہے اور کبھی چار سو سے بھی حاصل نہیں ہوتا ۔

 [تواتر کا صحیح تصور]

تواتر اس تصور کا نام ہے:

* جو یقین کے اعلی درجے کی چیز ہوتی ہے

* جس کے بارے میں دو رائے نہ قائم ہوں صرف ایک بات ہو

* تواتر سے مراد وہ چیز ہے جس کے بارے میں ظن کا امکان ختم ہو جائے

اب اگر آپ کہتے ہیں کہ خبر واحد ہی مفید للیقین ہے یا مفید للعلم ہے تو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے  کہ  علم کے بھی تو آگے درجات ہیں اگر ایک بات 50 لوگوں نے بیان کی ہے اور ایک بات 1بندے نے بیان کی ہے تو یہ پکی بات ہے کہ 50 بندوں کی بیان کردہ بات کے اوپر زیادہ یقین پیدا ہو  گا اسکا معیار زیادہ اونچا ہوگا

 ✍🏻قرآن پاک کا ثبوت  عام درجے کی  خبر واحد سے نہیں ہوتا یہ بالکل کنفرم بات ہے

 [ بخاری و مسلم کی روایات کی حیثیت]

اسی طرح صحیح بخاری و مسلم کہ احادیث عام معیار صحت پر نہیں اترتیں ان کی  صحت میں امام بخاری و مسلم نے کچھ ایسی خصوصی شرائط شامل کی ہیں جن کی وجہ سے صحیح بخاری و مسلم پر سب کا  اتفاق ہو گیا ہے۔

         مثلا امام مسلم رح مقدمہ صحیح مسلم میں لکھتے ہیں کہ میں نے اس کتاب میں صرف وہ احادیث نقل نہیں کیں جو محدثین کے اصول پر میرے نزدیک صحیح تھیں بلکہ میں نے اس کتاب میں وہ احادیث نقل کی ہیں [ مَا اجمَعُ علیه] جن پر سب محدثین میں اتفاق ہے - یہ وہ اضافی شرط ہے جیسے وہ جس پر تمام قاریوں کا صحت سند کے اعتبار سے اتفاق ہو تو وہ قرآن بن جاتی ہے - صحیح مسلم کی احادیث قرآن پاک کے اس معیار تک صحیح مسلم کو پہنچا دیتی ہیں ۔

📌انور شاہ کشمیری اور صرخصی تک نے مانا ہے  کہ صحیح بخاری و مسلم ویسا قطعی ثبوت کا فائدہ دیتی ہیں جیسا قرآن پاک کا قطعی ثبوت ہے اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے مانا ہے کہ عام صحیح حدیث اور صحیح بخاری و مسلم والی صحیح حدیث کا بہت فرق ہے اور  صحیح بخاری و مسلم کی صحیح حدیث قرآن کے برابر ہے ۔

  [ شیخ ثناء ﷲ زاہدی حفظہ اللہ کے موقف پر بات ]

[ = ]    شیخ ثناء ﷲ زاہدی حفظہ اللہ جماعت کے کبار علماء میں سے ہیں اور اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ الحمدللہ انہوں نے جو کام کیا ہے وہ کام قابل تعریف ہے - اب وہ جو کام کررہے ہیں اس کے پیچھے بھی ان کا جذبہ نہایت اچھا ہے لیکن جو کام وہ کر رہے ہیں اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے اصطلاحات حدیث کے اوپر تشکیل کے دروازے کھل جائیں گے جو نہایت خطرناک بات ہے ۔

ان کا جذبہ جو صحیح بھی ہے وہ یہ ہے کہ معتزلہ و حنفیہ دونوں کے ہاں معیار جو یہ  ہے کہ جب بھی کوئی حدیث آتی ہے وہ یہ بحث چھیڑ دیتے ہیں کہ یہ حدیث متواتر ہے یا خبر واحد ہے یہ اہل بدعت کا انداز ہے... اس کا وہ رد کرنا چاہ رہے ہیں ۔

 [ محدثین کا حدیث کو پرکھنے کا انداز]

 جب کبھی محدثین کے پاس کوئی حدیث آگئی اور وہ 5 شرائط سے ثابت بھی ہے تو محدثین اس پر اعتماد کرتے ہیں- ہاں! اگر وہ راویت  اس سے زیادہ صحیح روایت سے ٹکرا جائے تو پھر یہ بحثیں ہیں کہ کون سی روایت اصح ہے اور کون سی روایت صحیح ہے اور وہ اصح کو لے لیتے ہیں صحیح کو چھوڑ دیتے ہیں-اگر تو قرآن کا حکم ہو یا عام خبر واحد کا حکم ہو تو محدثین کے ہاں ایک ہے پھر وہ تفریق نہیں کرتے آپ دیکھ اہل حدیث حدیث سے قرآن کی عام تخصیص کرتے ہیں

 [ تواتر کے انکار کی بحث کا آغاز]

تواتر کے انکار کی بحث جس آدمی سے چلی ہے وہ سعودیہ عرب کا ایک عالم ہے جس  کا نام حاتم شریف العونی ہے اس آدمی نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے[المنھج المقترۃ فی علم المصطلح] نیز حمزہ ملئی باری وغیرہ ان لوگوں  نے اس قدر مغالطہ پیدا کیا ہے کہ لوگوں کے درمیان یہ بحث کھڑی ہو گئی کہ حدیث کا پورا علم ہی مشکوک ہے -

یہ لوگ کہتے ہیں کہ متقدمین جن تک اصطلاحات مدون نہیں ہوئی تھیں تب تک  کے علماء کے  حکم صحیح ہیں اور بعد والے اہل ظاھر ہیں وہ علل کو جانتے ہی نہیں ہیں... جو لوگ اس میدان میں  کام کر رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ کتنا بڑا  اور خطرناک مسئلہ ہے

اصطلاحات محدثین کے بارے میں  جب تشکیک کا دروازہ کھولا گیا  اہل سنت والجماعہ کے علماء نے اسے قبول نہیں کیا

* شیخ زبیر علی زئی رح نے حسن لغیرہ پر تشکیک کا دروازہ کھولا

* دکتور ہاشم شریف نے تدلیس پر بھی  تشکیک کا دروازہ کھولا ہے

[ ہمارا اور اہل السنہ والجماعہ کے اسلاف کا  موقف]

ہم کہتے ہیں کہ پہلے تصورات تھے لیکن اصطلاح جب مدون ہوں گی تو پھر اس کے بعد ہی تدوین کی بحث چلے گی مثلا تجوید ہے ڈیڑھ سو سال  تک اس کا مسئلہ مدون نہیں تھا گرامر کا جو پہلا مسئلہ ہے وہ ابو الأسود الدولی نے چھیڑا ہے اور سیوطی کی کتاب ہے [ الاخبار المرویہ فی سبب وضع علم العربیہ] یہ کتاب اس موضوع پر ہے کہ علم لغت کیسے مدون ہوا... یاد رہے! ابو الاسود الدولی تابعی ہیں۔

ترمذی نے حسن کو تھوڑا تھوڑا استعمال کرنا شروع کیا ہے پھر بغوی نے حسان کی اصطلاح تھوڑی تھوڑی استعمال کرنا شروع کر دی اب کوئی حسن لغیرہ کا انکار کرنے کے لیے یہ مثالیں بیان کرنا شروع کر دے تو یہ سمجھداری والی بات نہیں ہے اسی طرح تواتر کے بارے میں تواتر کی اصطلاح اس دور تک  تلاش نہیں کرنی چاہیے جب تک دور تدوین نہیں ہوا

 [شیخ ثنا ء اللہ زاہدی صاحب حفظہ اللہ کے دیے گئے حوالے کے بارے میں بات ]

انہوں نے الرسالہ کا حوالہ دیا غامدی نے تواتر عملی کا  پورا موقف  خبر عامہ الرسالہ سے اٹھایا ہوا ہے اور ہماری اس سے یہ بحث ہوتی رہی کہ آپ اس کا حوالہ نہ دیں کیونکہ الرسالہ اس دور کی کتاب ہے جب اصول حدیث کی اصطلاحات طے ہی نہیں ہوئیں تھیں

 [  امام شافعی کے ہاں خبر العامہ سے مراد ]

📌ان کے ہاں خبر دو طرح کی ہے :

 (1) خبر خاصہ

 (2) خبر عامہ

   ان کے ہاں خبر العامہ وہ خبر ہے جو” خبر واحد سے ثابت ہو“ لیکن” اس کو نقل کرنے والے ہر طبقے میں کافی سارے افراد ہوں “

 خبر خاصہ سے ان کی مراد وہ روایت ہے”جسے صرف چند مخصوص افراد بیان کریں “ خبر واحد اور خبر متواتر امام شافعی کی اصطلاح ہی نہیں ہےاب سمجھنے کی بات یہ ہے کہ امام شافعی سے لے کر اب تک 1200 سال بنتے ہیں اور ان سے اب تک  اس موقف کا  حامی کوئی بندہ نہیں ملتا‘‘

 یاد رکھیں! 

 اصطلاحات کے بارے میں اگر تشکیک کا دروازہ کھل گیا تو سمجھ لیں  آپ کا پورا فن حدیث اڑ گیا محترم شیخ ثناء اللہ زاہدی صاحب حفظہ اللہ کہتے ہیں نووی اور امام ابن حجر وغیرہ سب متکلم ہیں

*  اب سوال یہ ہے کہ اگر یہ سب متکلم ہیں تو متکلم کی باتیں تو منطق اور فلسفہ کی نظر میں دیکھنا چاہییں-

*  اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اصول فقہ میں ہمیں جہینی کی کتاب کو ایک طرف رکھ دینا چاہیے کہ وہ متکلم ہے

 ہمارے محدثین کا منہج یہ نہیں ہے- سلمان رہیلی نے  دو گھنٹے کا لیکچر اس موضوع پر دیا ہے کہ ہماری عقیدے کی کتابوں کی شروحات لکھنے والے  کئی متکلمین  ہیں ۔

 [عقیدہ طحاویہ کی مثال]

جیسے عقیدہ طحاویہ ہے کہنے کو یہ امام ابن تیمیہ کا ہے لیکن اس کے باوجود بندہ بعض اوقات منتشر ہو جاتا ہے کیونکہ اس میں ایمان کے مسئلے میں جو مسئلہ پیش کیا ہے وہ اہل سنت کا موقف نہیں ہے سعودی علماء نے شرح طحاویہ پر بعض جگہ حواشی بھی لگائے ہیں کہ یہاں ہمارا موقف یہ نہیں۔


رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ  وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ

آمین ثم آمین

 

عن الكاتب

Peace Center

التعليقات


call us

اگر آپ کو ہمارے بلاگ کا مواد پسند ہے تو ہم رابطے میں رہنے کی امید کرتے ہیں، بلاگ کے ایکسپریس میل کو سبسکرائب کرنے کے لیے اپنی ای میل درج کریں تاکہ پہلے بلاگ کی نئی پوسٹس موصول ہو سکیں، اور آپ اگلے بٹن پر کلک کر کے پیغام بھیج سکتے ہیں...

تمام حقوق محفوظ ہیں۔

Peace Center