Mutwatar or Aahad ka TaaqaabLi Mutala (Part 1)
Peace Center Peace Center
recent

ہیڈ لائنز

recent
random
جاري التحميل ...

Mutwatar or Aahad ka TaaqaabLi Mutala (Part 1)

 

کیا اہل فن (محدثین کرام) کے ہاں خبر متواتر اور خبر آحاد کی تقسیم متنازع تقسیم ہے؟!

 [علمائے روایت قراء اور محدثین کے مناہج کی روشنی میں]

( Part:1)

🎙️اسپیکر : فضیلة الشیخ ڈاکٹر  حافظ حمزہ مدنی حفظہ اللہ

مدیر التعلیم جامعہ لاہور الاسلامیہ [رحمانیہ]

 الحکمة انٹر نیشنل لاہور،پاکستان



بِســـــــــــمِ ﷲِالرَّحمٰنِ الرَّحِيم

🖊️ قال ﷲ تعالیٰ : وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَ یَتَّبِـعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَ نُصْلِهٖ جَهَنَّمَؕ-وَ سَآءَتْ مَصِیْرًا [سورۃ النساء : 115]     

 جن چیزوں سے بندے کی بات کے  معیاری ہونے کا پتہ چلتا ہے :

 (1) اس کی بات قرآن و سنت کے مطابق ہو _

 (2) جو اس نے قرآن و سنت سے مفہوم اخذ کیا ہے وہ ائمہ سلف (متقدمین آئمہ حدیث وفقہ) کے مطابق ہ۔ تو اگر اس کی بات ائمہ حدیث کے مطابق نہیں تو اس کے خلاف بہت بڑی حجت قائم ہو جاتی ہے۔

  یہ بات بہت سمجھنے والی ہے کہ قرآن وحدیث سے بریلوی بھی دلیل لے لیتے ہیں، جاوید غامدی اور غلام احمد پرویز تک دلیل قرآن وحدیث سے لیتے ہیں، لیکن  اصل مسئلہ یہ ہے کہ قرآن وحدیث کا جو مفہوم اخذ کیا ہے کیا وہ :

فقھائے عظام کے مطابق

محدثین کرام کے مطابق

ائمہ دین کے مطاب  ہے یا نہیں؟

ائمہ دین کے بھی دو دور ہیں

 [1] متقدمین کا دور: یہ وہ دور ہے جس میں ابھی اصطلاحات مدون نہیں ہوئیں تھیں

 [2] متاخرین کا دور: یہ وہ دور ہے جس میں اصطلاحات مدون ہوگئیں۔ اس کے بعد پھر قرون وسطی کے اہل علم نے فنون کی کتب میں خاص درجہ میں اہتمام کیا، پھر ہر فن کی کتب آ گئیں، جیسے :

📖اصول فقہ کی کتب

📖اصول حدیث کتب

📖اصول الدین اور عقیدہ کی کتب

] سبیل المؤمنین سے مراد [

🖊️ قرون وسطی میں ماہرین نے متقدمین کے علم کو محفوظ کیا اور اب قرون اخری میں  ہم لوگ ہیں-  خیر القرون سے  اور پھر متقدمین ائمہ محدثین سے ہوتے ہوتے دور تدوین سے گزرتے ہوئے قرون وسطی کے اہل علم کی خدمات کا سنہرا دور بھی شامل کرتے ہوئے ہم عصر حاضر تک پہنچتے ہیں، یہ ماضی سے مسلسل چلتے آنے والا یہ سارا سلسلہ "سبیل المومنین" ہے  -

https://www.facebook.com/alhikmahinternational/videos/1218301826161576

]غامدی کا نظریہ  [

اب  جاوید غامدی صاحب یہ کام کرتے ہیں کہ وہ دلیل کو پیش کرکے ان سب علماء و فقھائے دین کو درمیان میں سے نکال دیتے ہیں - ان کا عام انداز یہ ہے علماء سے بدظنی کی وجہ ہے کہ وہ علماء و فقھاء کو غلط سمجھتے ہیں کہ سارے فقھاء تو بات کو غلط سمجھے ہیں، جبکہ قرآن و حدیث سے یہ بات یوں یوں نکلتی ہے اور ان کے غلط گمان کے مطابق علماء یا اسلاف کی بات کو لینا چاہے وہ سب کسی معاملہ میں متفق کیوں نہ ہوں یہ "تقلید" ہے۔

 ]غامدی کے نظریے کا رد[

 ہم یہ کہتے ہیں آپ جو بات کر رہے ہیں، نہایت خطرناک ہے، کیونکہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے :

))وَیَتَّبِع غَیرَ سَبِیلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّی وَنُصلِهِ جَھَنَّم))

کس قدر غلط رستہ پکڑا ہے کہ آپ ائمہ دین کو غلط کہہ رہے ہیں

 ]محدثین کے بارے میں  کی جانے والی غلط باتیں[

جاوید غامدی وغیرہ، شبلی اور شبلی کا ایک شاگرد ہے تقی امینی  اس نے یہ لکھا ہے  کہ محدثین کا جو فن ہے جسے ہم مصطلح الحديث کہتے ہیں یہ فن  محفوظ نہیں ہے

انہوں نے کہا کہ اصل میں محدثین صرف راویوں کے بارے میں اور سند کے بارے میں بحث کرتے رہے ہیں اور انہوں نے متن حدیث کو سرے سے عمل تحقیق میں دیکھا ہی نہیں اس لیے بے شمار احادیث ذخیرہ حدیث میں ایسی آگئی ہیں، جو روایتًا صحیح ہیں درایتاً ضعیف ہیں۔

ان کے ہاں محدثین کا علم اس اعتبار سے ناقص ہے کہ انہوں نے فن کے اندر صرف سند اور روای کے اعتبار سے چیزیں محفوظ کی ہیں اور متن سے متعلقہ جو غیر معقول چیزیں آرہی ہیں انہیں پرکھا نہیں ہے۔

۞... جو لوگ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں اس کا مطلب ہے وہ فنِّ حدیث کا استخفاف کر تے ہیں ...۞

 فنِّ حدیث کا استخفاف اور اس کے انکار میں فرق  [

انکار کا مطلب ہے کہ بندہ کھل کر حدیث کا انکار کردے اور استخفاف کا مطلب ہے کہ بندہ ایسی باتیں کرنا شروع کر دے جن باتوں سے محدثین کے فن کے بارے میں تشکیک کی سوچ پیدا ہو جائے-  جاوید غامدی تو کھل کر ان باتوں کا حامی ہے -

مولانا مودودی نے بھی یہی  موقف بیان کیا ہے  کہ محدثین نے متن کے بارے میں کام نہیں کیا، لیکن جاوید غامدی اور مولانا مودودی کی بات میں اس بات کا اقرار ہے  کہ محدثین کا جو روایتی کام ہے وہ مکمل  قابلِ اعتماد ہے  ؞

ذہن میں رکھنے والا اہم نکتہ

یہ لوگ کہتے ہیں کہ محدثین کا جو روایتی کام ہے وہ قابلِ اعتماد ہے - محدثین کی جو کتابیں ہیں ان میں کسی اصطلاح پر بطورِ اصطلاح وہ اعتراض نہیں کرتے یہ ان کی اچھی بات ہے -

استخفافِ حدیث کی مثال

مولانا مودودی بہت تعریف کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ محدثین  کا روایتی کام اتنا اچھا ہے کہ اس کی کوئی مثال نہیں، لیکن آخر وہ بھی انسان ہی تو تھے، ان کے کام میں بھی  بطور انسان کچھ نقائص کے پہلو تھے لیکن اس کام میں ان کے نقائص نہیں جو روایت کے متعلق ہے- ان کے کام کا کمزور پہلو یہ ہے کہ انہوں نے متن سے متعلقہ معیارات تحقیق پورے نہیں کیے۔ یہ استخفافِ حدیث ہے کہ کھلا انکار نہیں کرتے لیکن ایسی باتیں کرتے ہیں جن سے فن حدیث (علم المصطلح) کے بارے میں تشکیک پیدا ہوجاتی ہے- یہ بہت باعث تشویش بات ہے -

اصطلاحاتِ حدیث کے بارے میں نہایت حساس مسئلہ

اب مخلص اہل علم میں بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ محدثین کے روایتی کام میں بھی ایسی چیزیں آگئیں ہیں، جو قابل اعتماد نہیں ہیں۔ہمارے بہت محترم الشیخ زبیر علی زئی ؒ  نے اصول حدیث کی کئی بحثوں کے اندر یہ انداز اختیار کر لیا - مثلاً حسن لغیرہ کی اصطلاح کے بارے میں بحث کھول دی کہ یہ  اصل میں متقدمین محدثین  کی اصطلاح نہیں تھی، متاخرین نے ڈال دی- انہوں نے حسن لغیرہ کا انکار کر دیا اور دلیل یہ پیش کی کہ آپ تمام صحاح ستہ میں حسن لغیرہ کی اصطلاح صرف امام ترمذی کے ہاں دیکھیں گے۔ آپ  کے اساتذہ امام بخاری ؒ  اعر امام مسلم ؒ وغیرہ کے ہاں یہ چیز نہیں دیکھیں گے۔

شیخ زبیر علی زئی ؒ کی تمام تر خدمات کے اعتراف کے باوجود اہل حدیث علماء میں حسن لغیرہ کے بارے میں ان کا نیا موقف شدید اختلاف والا اور حساسیت والا رہا ہے، کیونکہ ان کے اس موقف کی وجہ سے کئی احادیث جو محدثین کےفنی معیار پر ثابت تھیں وہ ضعیف ہو گئیں، کیونکہ حسن لغیرہ کی مصطلح کا انکار کسی جزوی معاملہ کا انکار نہیں تھا بلکہ ایک بڑی مصطلح اور اصول و ضابطہ کا انکار تھا۔ اس وجہ سے بات فن حدیث کی ایک مسلمہ اصطلاح کے انکار واقعات پر چلتی رہی ہم کہتے ہیں کہ اگر  یہ اصطلاح امام ترمذی سے پہلے نہیں ملتی تو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ امام ترمذی ؒ خود کس دور کے ہیں -

اصطلاحات حدیث کے بارے میں پس منظر

یاد رکھیں! کتب ستہ کے مؤلفین سب کے سب فن حدیث اور علم المصطلح کے دور تدوین سے پہلے گزرے لوگ ہیں - یعنی اصولِ حدیث کی پہلی کتاب المحدث الفاصل ہے، جس کے مؤلف ابو الحسین رامہرمزی ہیں - جن کی وفات 360 ہجری ہے - 360 ہجری سے پہلے صحاح ستہ کی تمام کتب لکھی جا چکی تھیں، اب آپ ان کتب میں یہ اصطلاحات نہیں پائیں گے -

=      حسن لذاتہ

=     حسن لغیرہ

=     صحیح لذاتہ

=     صحیح لغیرہ

  حتی کہ متواتر کی اصطلاح بھی قدیم محدیث کی ان کتب میں نہیں ملے گی، لیکن ” متاخرین نے متقدمین کی انہیں مناہج پر غور کر کے ان کے تصورات کو ایڈٹ کیا ہے اور ضابطہ بندی میں ڈھالا ہے“ - بعد میں یہ چیزیں آگے چلیں تو ہمارے سامنے فن حدیث کا پورا نظام آگیا کہ یہ چیز معلق ہے، مرسل ہے، یہ تدلیس ہے وغیرہ وغیرہ

 خبر مقبول کی چار قسمیں ہیں جن میں سے :

[1] ایک صحیح ہے

[2] ایک حسن ہے

 پھر صحیح کی آگے دو قسمیں ہیں :

[1] صحیح لذاتہ

[2] صحیح لغیرہ

  محدثین کے ہاں آپ کو یہ اصطلاحات عام ملیں گی - پھر رہی بات کہ کونسی خبر مفید للظن ہوتی ہے اور کونسی خبر مفید للیقین ہوتی ہے - مثلا تدریب الراوی کے اندر خبرِ مقبول کی تعریف میں لکھا ہوا ہے :  ھو الذی یترجح صدق المخبر به 

وہ خبر  جس میں خبر دینے والے راوی کی بات میں رجحان صحت کا ہو - گویا صحیح حدیث میں ضعف کا امکان ہوتا ہے، لیکن رجحان صحت کا ہوتا ہے - الغرض جس خبر میں رجحان صحت کا ہو اس خبر کو محدثین صحیح کہہ دیتے ہیں  اور وہ خبر جس میں ایسا رجحان صحت قائم نہ ہوسکے یعنی صحت کا امکان تو ہو، لیکن راجح درجے میں قائم نہ ہوسکے تو وہ خبر مردود کہلائےگی۔

اسی لیے خبر مردود کی تعریف کتب مصطلح میں یوں کی جاتی ہے: ھو الذی لم یترجح صدق المخبر بہ-

 خبر مقبول وخبر مردود کی یہی تعریفیں اصولِ حدیث کی عام نصابی کتب میں بھی لکھی ہیں- معلوم ہوا کہ محدثین کے ہاں ہر صحیح حدیث میں ضعف کا امکان اور ہر ضعیف حدیث میں صحت کا امکان موجود ہے، اس نکتہ کی مزید وضاحت بعد میں ہم کریں گے -

مراتب الصحيح کی سات قسمیں ہیں

1. پہلی وہ جس میں صحیح بخاری و مسلم دونوں کی مشترکہ روایت موجود ہو

2. صرف صحیح بخاری کی روایت ہو

3. صرف صحیح مسلم کی روایت ہو

4. جو صحیح بخاری و مسلم دونوں کی شروط پر ہو

5. جو صرف صحیح بخاری  کی شروط پر ہو

6. جو صرف صحیح مسلم کی شروط پر ہو

7. سنن اربع یا اس کے نیچے کسی دوسری کتاب کی روایت ہو۔

 درجہ حدیث میں صحیح بخاری و مسلم کی اہمیت

آپ دیکھیں کہ محدثین کے ہاں صحیح بخاری و مسلم کی روایات بھی صحیح ہیں اور سنن اربع کی بھی کافی ساری صحیح ہیں لیکن صحت کے چھ درجے/ مراتب محدثین کرام نے  صرف صحیح بخاری و مسلم کے لیے مختص کیے ہیں -

مراتب الصحیح کے اعتبار سے راجح ومرجوح روایت

اگر دو احادیث آپس میں تطبیق نہ پا سکیں تو   محدثین  دوسرے درجے کے بالمقابل پہلے درجے کی حدیث کو ترجیح دیں  گے [کیونکہ دوسرے درجہ کی صحیح روایت میں پہلے درجہ کی صحیح کے بالمقابل ضعف کا امکان موجود ہوتا ہے] ایک حدیث اعلی درجے کی صحیح ہے اور دوسری کا درجہ کچھ کم درجہ میں صحت کا  ہے تو اعلی درجے والی کو کم درجہ والی صحیح پر ترجیح دی جائے گی -

اصولی بات

صحیح حدیث میں پانچ شرطیں پورے کمال کے ساتھ پائی جاتی ہیں اور حسن میں ضبط کے اندر تھوڑی سی کمی ہوتی ہے - راوی خفیف الضبط ہوتا ہے لیکن محدثین کے ہاں یہ بھی قبول ہوجاتی ہے کیونکہ بہرحال صحت روایت کی پانچوں شروط متحقق ہو رہی ہیں - اب اگر صحیح اور حسن روایتیں آپس میں ٹکرا جائیں اور ان کی آپس میں تطبیق نہ ہو رہی ہو تو” بالاتفاق محدثین صحیح کو حسن روایت پر ترجیح دیں گے “ - یاد رہے! یہ کلامیوں ومنطقیوں کا اصول نہیں ہے، بلکہ محدثین کا پورا نظام اس بنیادی ضابطہ کے اوپر چل رہا ہے -

قرآءات شاذہ اور قرآءات متواترہ میں بنیادی فرق

      اصول ہے کہ جس روایت وخبر کے مخصوص پیمانہ پر قرآن یا قراءات  ثابت ہوتی ہیں اسے ہم تواتر کہتے ہیں - واضح رہے کہ قرآن کریم کا ذریعہ ثبوت بالاتفاق حدیث کے ذریعہ ثبوت سے کہیں اونچا ہے - صرف صحیح روایت ہو اور وہ پانچوں شرائط کے ساتھ ثابت ہو جائے قرآء حضرات کے ہاں ایسی روایت سے قرآن ثابت نہیں ہوتا، بلکہ صرف ان پانچ شرائط کی حامل صحیح روایت سے جو بات روایت ہو اسے قرآءاتِ شاذہ کہتے ہیں اور وہ قرآن نہیں بن سکتی - صرف دس قرآتیں متواترہ  ہیں جیسا کہ عام اصطلاح بھی ہم سنتے ہیں کہ قرآت عشرہ متواترہ ہیں -

دس متواتر قراءات کے بعد  چار اماموں کی مزید قرآتیں مشہور ہیں، جو ہر زمانہ میں پڑھی پڑھائی گئیں، ان میں ہر بڑے نے تصنیفات بھی لکھیں، چاروں کی چاروں بالکل صحیح سند کے ساتھ ثابت ہیں، جتنا قرآت متواترہ کا حجم ہے، اس کے اندر جو کلمات ہیں اتنا ہی حجم قرآءات شاذہ کا بھی ہے۔ قرآءات اربعہ شاذہ اور قرآءات عشرہ متواترہ دونوں صحیح ہیں، لیکن ایک قرآن ہے، دوسری صرف صحیح ہے، اسے قرآن کا مقام حاصل نہیں تو واضح ہوا کہ اہل فن قرآء حضرات کے ہاں بالاتفاق صرف صحت سند سے قرآن ثابت نہیں ہوتا - بلکہ اس کے ثبوت کے لیے صحیح حدیث سے اونچا درجہ چاہیے۔

 کسی روایت کے قرآن ثابت ہونے کے لیے مخصوص شرائط

کسی روایت کے قرآن بننے کے لیے کم ازکم محدثین کے ہاں صحیح حدیث والی 5 شرائط مطلوب ہوتی ہیں اور اس کے علاوہ تین  اضافی شرائط بھی مطلوب ہیں یعنی کُل ملا کر آٹھ شرائط ہیں۔ صحیح حدیث کی 5 شرائط کے علاوہ 3 مزید شرائط یہ ہیں :

1.  وہ صحیح روایت مصاحف عثمانی کے مطابق ہو

2.  وہ لغات عرب کے مطابق ہونی چاہیے

 [اگر صحت سند سے ﷲ کے رسول سے ثابت ہو،  کلام عرب میں اس کا کوئی شاہد نہیں / عرب کی کسی ایک لغت سے وہ ثابت نہیں تو ایسی روایت صحیح حدیث تو بن جائے گی لیکن قرآن کا درجہ حاصل نہیں کرسکتی] -

3.  ایسی صحیح روایت کو اہل فن یعنی تمام قرآء حضرات بالاتفاق قرآن مانیں، جسے قراء کی اصطلاحات میں تلقی بالقبول کا نام دیتے ہیں۔ 

[ اگر اس قراءۃ کے بارے میں قراء حضرات کی دو رائے ہو گئیں تو وہ قرآن نہیں بن سکتا]

 پس ثابت  ہوگیا کہ قرآن پاک کا ذریعہ ثبوت حدیث کے ذریعہ ثبوت سے اونچا ہے -

[اصولی بات (متفقہ اصول)]

اگر قرآن (خبر متواتر) کا اور حدیث (خبر واحد) کا باہم  اختلاف ہو جائے اور کوئی وجہ تطبیق نہ ہو تو ترجیح قرآن کو دیں گے - اختلاف الادلہ میں یہ متفقہ طریقہ ہے -

      اس کی ایک مثال کی طرف ہم اشارہ کرتے ہیں کہ سورۃ لقمان کی آخری آیت ان اللہ عندہ علم الساعۃ ۔الخ کا اسلوب بیان حضرت ابوہرہ رض کی صحیح حدیث خمس لا یعلمہن الا اللہ سے کچھ مختلف ہے۔

 آئیے اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:

اس آیت میں پانچ چیزوں میں سے تین میں اسلوب حصر کا ہے، جبکہ وینزل الغیث، ویعلم ما فی الأرحام دو چیزوں میں انداز خبر بلا حصر کا ہے۔ ٹکراؤ یہ ہے کہ ظاہر حدیث میں پانچوں امور حصر سے بیان ہوئے ہیں تو وجہ تطبیق کیا ہے یا بعض امور میں وجہ ترجیح کی صورت کیا ہوگی؟

⚠️  اہم علمی نکتہ یاد رکھیں! بلاغت اور النحو الدلالۃ  کا مشہور قاعدہ ہے کہ "نکرہ" اپنے عموم میں حصر کا فائدہ دیتا ہے جب وہ درج پانچ لفظوں کے تحت آجائے :

(1) ان   (2)مِن   (3)فی

 (4) لا   اور  (5)  ما

جیسے :  آیت کریمہ  وما اختفلتم فیہ من شیئ فحکمہ الی ﷲ

 اسی سے الشیخ محمد امین شنقیطی رح نے تفسیر أضواء البیان میں اسی آیت کے تحت لکھا ہے کہ یہ جو حنفی لوگ کہتے ہیں کہ فقہ کی ضرورت اس لیے ہے کہ کئی چیزیں کتاب و سنت میں موجود نہیں ہوتیں  تو ہم  انہیں فقہ سے حل کر لیتے ہیں تو انہوں نے کہا ہے کہ پہلے تم ثابت تو کرو کہ کوئی ایک مسئلہ بھی ایسا ہو کہ اس کا قرآن و حدیث میں حل موجود نہ ہو ؞؞؞

    بعض اور مثالیں 

فان تنازعتم فی شئی فردوہ الی ﷲ

یہاں بھی "شئی" سے پہلے "فی"  آگیا ہے یعنی کسی بھی شے میں تمہارا اختلاف ہو جائے تو فردوہ الی اللہ والرسول

* اب سورۃ لقمان کی اسی آیت کے تحت دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ

وما تدری نفس ماذا تکسب غدا

وما تدری نفس بأی أرض تموت

ان دونوں مقاطع میں  "ما" آگیا ہے، یعنی کوئی بھی نفس نہیں جانتا کہ کل اس کے ساتھ کیا ہونا ہے اور اسے موت کہاں آنی ہے؟!

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے:

* حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث میں تو پانچوں باتوں میں حصر ہے جبکہ

* قرآن کریم سورۃ لقمان کی آیت میں تین میں حصر، دو میں خبر بلا حصر کا انداز ہے۔

* نیز آج کی سائینس بھی اس کو بیان کر رہی ہے کہ  الٹرا ساؤنڈ میں پتہ چل جاتا ہے کہ رحم مادر میں بچہ ہے یا بچی ہے۔ اسی طرح بارش کے بارے میں محکمہ موسمیات کے اکثر اندازے درست ہوتے ہیں۔ 

  اس کا جواب یہ ہے کہ وینزل الغیث ویعلم ما فی الأرحام کلوالی دو چیزوں کا انتہائی علم تو ﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا، ابتدائی درجے کا کچھ علم حاصل ہو سکتا ہے، جبکہ باقی تین چیزوں کا اول وآخر ہر قسم کا علم صرف اور صرف اللہ تعالی ہی کو ہے۔ 

حضرت ابو ہریرہ  tوالی حدیث کا  یہ معنی لینا کہ پانچوں چیزوں کے سلسلہ میں ابتدائی / انتہائی اور درمیانی ہر طرح کا ہر نوعیت علم صرف اس صرف ﷲ تعالیٰ ہی جانتا ہے، اس کے بارے میں حدیث ابو ہریرہ کے الفاظ سے یہ مراد لینا درست نہیں ہیں ۔ اس حوالے سے اردو زبان میں ایک پوری کتاب اس آیت اور حدیث کے بارے میں لکھی گئی ہے جو مجلس التحقیق الاسلامی کی لائبریری میں موجود ہے

   ایک جواب یہ بھی ہے جو علماء نے لکھا ہے کہ حدیث کے جو الفاظ ہیں وہ صحابی کی تعبیر ہے، وہ صحابہ کے الفاظ ہیں اور قرآن کے الفاظ ﷲ تعالی کے کلام کے  محفوظ الفاظ ہیں، حدیث کے الفاظ کی حیثیت قران کریم جیسی نہیں، اس لیے حدیث کے الفاظ کو قرآن کے الفاظ کے اندر رکھ کر نیچے لا کر سمجھیے- حدیث کے الفاظ کو اصل نہیں بنائیے اصل قرآن کے الفاظ کو بنائیے -

 اصولی بات

1قرآن پاک کو متن کی جگہ پر رکھیے اور

2حدیث کے الفاظ کو شرح میں لائیے ۔

 یاد رکھیں! حدیث:  "خمس لا یعلمہن الا اللہ" کے صرف وہی مخصوص مفاہیم درست ہوں گے جو الفاظ قرآن کے مخالف نہ ہوں۔

📌بہتر ہے ہم اصولی باتوں پر رہیں، زیادہ تفصیلی بحث میں نہ جائیں۔ اس ساری  بحث کا مقصد یہ بات ثابت کرنا ہے کہ جب بھی اصح روایت اور صحیح روایت ٹکرا جائیں تو ترجیح اصح روایت کو دی جائے گی  -

مشک الآثار للطحاوی ، کتاب کا موضوع

قرآن اور حدیث [ ان کا باہمی ٹکراؤ]

حدیث اور حدیث [ان کا باہمی ٹکراؤ]

قرآن کا قرآن [ان کا باہمی ٹکراؤ]

ان تین قسموں پر مشتمل ہے ان تینوں کی بحث امام طحاوی ؒ اس کتاب میں لے کر آئے ہیں -

کیا صحیح احادیث سے ثابت ہر روایت قرآن بن سکتی ہے؟

بعض دفعہ ہم ایک طرف دفاع حدیث کر رہے ہوتے ہیں جو دوسری طرف تشکیک القرآن بن جاتا ہے - ہزاروں قرآتیں ایسی ہیں جو ہمارے ہاں  قرآن نہیں ہیں لیکن وہ قرآن بن جاتی ہیں - اب صحیح بخاری کی روایت ہے

حفظوا علی الصلوات و الصلاۃ  الوسطی صلاۃ العصر وقوموا للہ قنتین

اب ” صلٰوۃ العصر“  سیدہ عائشہ ؓ سے ثابت بخاری کی روایت ہے - لیکن ایسا ہونے یہ قرآن نہیں بن جائے گی کیونکہ

قرآن پاک کے ثبوت کے لیے صحت کے معیار سے اونچا معیارچاہیے

ہر طرف ہی صحیح روایت قرآن نہیں بنتی ہوتی یہ بات ذہن میں رکھیے - یہ بہت خطرناک نظریہ ہے کہ آپ ہر صحیح روایت کو قرآن کہنے لگ جائیں


 

عن الكاتب

Peace Center

التعليقات


call us

اگر آپ کو ہمارے بلاگ کا مواد پسند ہے تو ہم رابطے میں رہنے کی امید کرتے ہیں، بلاگ کے ایکسپریس میل کو سبسکرائب کرنے کے لیے اپنی ای میل درج کریں تاکہ پہلے بلاگ کی نئی پوسٹس موصول ہو سکیں، اور آپ اگلے بٹن پر کلک کر کے پیغام بھیج سکتے ہیں...

تمام حقوق محفوظ ہیں۔

Peace Center