Magarbi Tasawwur e Azadi Insani Smaaj ka Sabab
Peace Center Peace Center
recent

ہیڈ لائنز

recent
random
جاري التحميل ...

Magarbi Tasawwur e Azadi Insani Smaaj ka Sabab

 

مغرب کا دلفریب نعرہ آزادی

ابرار شفیق


کسی بھی معاشرے کی بقا اور استحکام اس کی اپنی قدروں، اصولوں، اور طریقہ کار پر منحصر ہوتا ہے۔ جب کوئی معاشرہ اپنی اقدار اور روایات کو نظرانداز کر کے دوسروں کی تقلید کرتا ہے، تو وہ اپنے زوال کی طرف قدم بڑھا رہا ہوتا ہے۔ اپنے سماجی اور مذہبی خصوصیات و امتیازات کو چھوڑ کر دوسرے معاشروں اور تہذیبوں کی تقلید کرنا اس بات کی علامت ہے کہ وہ معاشرہ اپنی شناخت کھو چکا ہے اور زوال کی طرف گامزن ہے۔

مغرب کا تصور آزادی بظاہر ایک پرکشش خیال لگتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ انسانیت کے لیے ایک بڑے بحران کا سبب بن چکا ہے۔ آزادی کا مطلب یہ ہے کہ ایک انسان جو چاہے کرے، بغیر کسی روک ٹوک کے، وہ اپنی خواہشات کو پورا کر سکے۔ دوسرے الفاظ میں، مغربی تصور آزادی کی جڑ "لا الہ الا الانسان" کے تصور میں ہے، یعنی انسان کو خدا کے بجائے اپنے نفس کو اپنا حاکم سمجھنا۔

مغرب کی آزادی کس سے؟

مغربی آزادی کا تصور دراصل مذہب، اخلاقیات، اور روایات سے آزادی کا مطالبہ کرتا ہے۔ یہ وہ آزادی ہے جو انسان کو اپنے اعمال کے نتائج سے بے پرواہ کر دیتی ہے، اور اس کے ہر فعل کو جائز قرار دیتی ہے، چاہے وہ فعل اجتماعی یا انفرادی سطح پر کتنا ہی نقصان دہ کیوں نہ ہو۔

آزادی کا معاشرتی اور اخلاقی زوال

مغربی دنیا نے اس تصور کو زندگی کے ہر پہلو میں نافذ کیا۔ جب یہ آزادی معاشی نظام میں شامل کی گئی، تو اس کا نتیجہ سود، ذخیرہ اندوزی، اور دیگر غیر اخلاقی مالیاتی معاملات کی صورت میں سامنے آیا۔ ان خرافات نے معاشرتی انصاف اور معیشت کے بنیادی اصولوں کو متزلزل کر دیا۔

جب یہ آزادی سیاست میں لائی گئی، تو اس کا نتیجہ جمہوریت جیسے نظام کی شکل میں ظاہر ہوا، جو کہ مغربی تہذیب میں بنیادی تصور کے طور پر موجود ہے۔ یہ نظام بظاہر عوامی رائے کا احترام کرتا ہے، لیکن عملی طور پر یہ چند افراد یا گروہوں کے مفادات کے لیے کام کرتا ہے، جو کہ اصل میں جمہوریت کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔

جب یہی آزادی معاشرت میں نافذ کی گئی، تو اس کا نتیجہ بے حیائی اور عریانی کے فروغ کی صورت میں سامنے آیا، جس نے خاندانی نظام کو تباہی کے دہانے پر جا کھڑا کیا۔ خاندانی رشتوں کی قدر و قیمت انتہائی خستہ ہو گئی، اور افراد کے درمیان محبت، احترام اور باہمی تعلقات کی جگہ مادی خواہشات اور خود غرضی نے لے لی۔

مغربی تہذیب کا داخلی تضاد

یہ امر بھی قابل غور ہے کہ مغربی تہذیب خود ایک داخلی تضاد کا شکار ہے۔ ایک طرف مغرب نے آزادی کا نعرہ بلند کیا اور دوسری طرف قوموں کی بقا کے لیے نیشلزم (قوم پرستی) کی آئیڈیالوجی پیش کی گئی۔ یہ دونوں نظریات ایک دوسرے کے متضاد ہیں اور اسی تضاد کی وجہ سے مغربی تہذیب میں انتشار اور خلفشار پیدا ہو رہا ہے۔ نیشلزم ایک محدود نظریہ ہے جو ایک قوم کو دوسری قوموں سے برتر ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے، جبکہ آزادی کا مغربی تصور اس کے بالکل برعکس ہے، جو فرد کو مکمل آزاد قرار دیتا ہے۔

مسلم دنیا پر مغربی اثرات

مغرب کی یہ کوشش ہے کہ وہ اپنے بوسیدہ اور منتشر نظریات کو مسلم ممالک میں بھی پھیلائے۔ معاشی امداد، تجارتی تعلقات، اور دفاعی معاہدے دراصل ان کے نظام، تہذیب، اور اقدار کو منتقل کرنے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ مغرب کی یہ مداخلت مسلم دنیا کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے، کیونکہ اس سے اسلامی تہذیب اور روایات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

اسلامی تہذیب کا احیاء: موجودہ دور کی ضرورت

ایسے حالات میں ضروری ہے کہ مسلم دنیا اپنی تہذیب، اقدار، اور روایات کو فروغ دے۔ ہمیں اپنی معاشرتی اور مذہبی خصوصیات کو دوبارہ زندہ کرنا ہوگا اور مغربی تہذیب کے اثرات سے خود کو محفوظ رکھنا ہوگا۔ اسلامی تہذیب کی اصل روح کو سمجھنا اور اسے معاشرتی اور انفرادی زندگی میں نافذ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے اور ہمارے عروج کی ضامن ہے ۔ دینی شعور کو بیدار کرنے اور اسلامی تعلیمات کو زندگی کے ہر پہلو میں نافذ کرنے سے ہی ہم ایک مستحکم اور مضبوط معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اسلام کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور ہمیں مغربی تہذیب کے منفی اثرات سے محفوظ رکھے۔ آمین۔

عن الكاتب

Peace Center

التعليقات


call us

اگر آپ کو ہمارے بلاگ کا مواد پسند ہے تو ہم رابطے میں رہنے کی امید کرتے ہیں، بلاگ کے ایکسپریس میل کو سبسکرائب کرنے کے لیے اپنی ای میل درج کریں تاکہ پہلے بلاگ کی نئی پوسٹس موصول ہو سکیں، اور آپ اگلے بٹن پر کلک کر کے پیغام بھیج سکتے ہیں...

تمام حقوق محفوظ ہیں۔

Peace Center