Khabar e Mutwar or Khabar e Ahaad ki Taqsim or Muhaddisen ka Nuqta Nazar (Part 1)
Peace Center Peace Center
recent

ہیڈ لائنز

recent
random
جاري التحميل ...

Khabar e Mutwar or Khabar e Ahaad ki Taqsim or Muhaddisen ka Nuqta Nazar (Part 1)

 

بِســـــــــــمِ ﷲِالرَّحمٰنِ الرَّحِيم

الحکمہ انٹرنیشنل شعبہ تعلیم کے زیر اہتمام
(ایک سالہ تخصص فی الدعوۃ والافتاء میں فضلائے دینی مدارس/ طلباء کے لیے جدید نوعیت کی ورکشاپ )
بیچ : 4 ( سیشن 2024/2025)

بعنوان:

کیا اہل روایت (قراء حضرات اور محدثین کرام) کے ہاں خبر متواتر وآحاد کی تقسیم متنازع ہے؟!
قرآن کریم اور احادیث نبویہ کے متخصصین کے فنی مناہج کی روشنی میں

[کسی موقف کو پیش کرنے کا علمی انداز]

اصول تحقیق میں یہ بات بنیادی ہے کہ جس دعوی کو پیش کریں، اس معاملہ میں

[1]  باقاعدہ اقوال بیان کریں

[2]  اقوال کا تجزیہ کریں

[3] دلائل کی روشنی میں آپ تحقیق کریں اور سلف کے قول میں سے ایک قول کو اختیار کرلیں کہ یہ بات ٹھیک ہے۔


dr hamza madni


[ یہ طریقہ سرے سے غلط  ہے کہ ]

آپ کہیں اس بارے میں 50 محدثین یا فقہاء نے یہ بات لکھی ہے، لیکن سارے ہی فضول کہتے ہیں، میں بتاتا ہوں صحیح بات کیا ہے۔

اس بات کی وضاحت زیر بحث موضوع میں ہم یوں کرسکتے ہیں اگر اصول فقہ یا اصول حدیث کی کتب میں یا عام شارحین حدیث امام ابن حجر عسقلانی وامام نووی رح وغیرہ کی بات سامنے آجائے اور یہ سمجھتے ہوں کہ اس معاملہ میں وہ کسی متکلم کی بات سے متاثر ہوگئے ہیں  گی تو ہم کیا کریں گے؟ ہم  اگر وہاں انہیں متکلمین کی صف میں کھڑا کرکے ان کی بات کو نہیں لیں گے تو ہمیں اس کی دلیل دینی پڑے گی کہ  علمائے اہل سنت نے اس کے مقابلے میں یہ پوزیشن لی ہوئی ہے۔ اگر اہل سنت میں کسی عالم نے بھی اس معاملہ میں کوئی محاکمہ نہیں کیا تو ایک بندہ یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ  14 صدیوں بعد میں پوزیشن لے رہا ہوں کہ مجھے آج یہ سمجھ آرہا ہے۔

 [ شیطان کی تلبیس ]

📌...×  جاوید غامدی کے استاد امین اصلاحی صاحب کا یہ انداز ہے کہ وہ اپنی کتب تدبر قرآن وغیرہ میں کئی دفعہ  لکھتے ہیں کہ اس مسئلے میں فلاں بھی الجھا ہوا ہے، فلاں بھی الجھا ہوا ہے،  پہلی بار مجھے اللہ تعالیٰ نے اس مسئلے میں مجھ پر یہ عقدہ کھولا ہے اور اب میں یہ نکتہ تاریخ میں پہلی بار کھول رہا ہوں -

 [والد گرامی مولانا عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ کہتے ہوتے ہیں کہ

”جو نکتہ پہلی بار کسی پر کھلتا ہے اور اس میں اس کا کوئی سلف نہ ہو تو وہ نکتہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔

اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ اصول حدیث میں فلاں معاملے میں 14 صدیوں بعد میرے اوپر یہ عقدہ کھلا ہے، تو سوال یہ ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ ، امام ذہبی، امام ابن حجر ؒ، امام نوویؒ اور امام سیوطی وغیرہ یہ اسلاف کیا اس قدر بند ذہن کے تھے کہ انہیں یہ بنیادی بات /نکتہ سمجھ نہیں آیا؟

بنیادی علمی ومنہجی بات

ہمارا اصول یہ ہے کہ”ہم قرآن وحدیث کے ساتھ فہم سلف اور اتباعِ سلف کو برابر ساتھ لے کر چلتے ہیں اور بڑی اہمیت دیتے ہیں۔

آپ کا مزاج بننا چاہیے کہ جو بات کریں وہ اسلاف کے اندر سے آنی چاہیے۔ اگر آپ نے فہم دین میں فہم اسلاف کی پابندی چھوڑنی ہے تو یاد رکھیں پھر آپ کو غامدی جیسے لوگوں کو سینے سے  لگانا پڑے گا-

﴿...۞ الشیخ حافظ ثناء اللہ زاہدی حفظہ اللہ نے جو خبر متواتر وخبر آحاد کی تقسیم کے رد کے ضمن میں اپنی کتاب میں جو حوالے دیے ہیں، وہ اس چیز کے ہیں کہ محدثین کے ہاں تواتر الاسناد کی فنی تعریف پر بعض محققین کے اعتراضات ہیں، لیکن آپ متقدمین میں  ایک بھی حوالہ ایسا نہیں پیش کر سکتے جو تواتر کے تصور کے انکار پر ہو-

امام ابن حزم رح کے علاوہ کئی علماء اس بات کے قائل ہیں کہ خبر واحد مفید للعلم ہوتی ہے، خبر واحد جو محتف بالقرآئن ہوتی ہے وہ ہوتی تو خبر واحد ہی ہے لیکن اس کا مقام وحکم متواتر حدیث والا ہی ہوتا ہے -

[تدوین کو مثالوں سے سمجھیے]

جب بچہ پیدا ہوتا ہے اس کا نام نہیں ہوتا... جب اس کا نام رکھا جاتا ہے تو مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس وجود کو نیا وجود بخشا گیا ہے، بلکہ اس کا وجود تو اس کے جنم کے ساتھ سامنے آگیا ہوتا ہے، اب تو صرف پہلے سے موجود فرد کے تعین کی خاطر اس کا اس ایک نام متعین کیا جاتا ہے۔

[ علمِ قرآءات میں تدوین کی مثال]

📌... معجم طبرانی کی ایک روایت ہےایک بندے نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے سامنے بغیر لمبا کیے پڑھا : [انما الصدقات للفقراء والمساكين] تو آپ  ؓ نے اسے روک دیا اور کہا کہ تم غلط پڑھ رہے ہو۔ ہمیں اللہ کے رسول ﷺ نے للفقراء کو ایسے مد کے ساتھ پڑھایا تھا... اس مد کا نام تیسری صدی ھجری میں مدون ہونے والے فن تجوید میں "مد متصل ہے اس وقت اس کا نام مد متصل"  ہے۔ شروع دور میں لوگ یہاں مد تو کرتے تھے لیکن اس کا نام اس وقت مد متصل نہیں تھا، لیکن جب بعد میں قواعد تجوید مرتب ہوئے تو اس کا نام مد متصل رکھ دیا گیا - اب تصور تو پرانا ہے، لیکن نام بعد میں رکھا گیا۔ ہمیں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے امت کو ہر چیز کی تعلیم دی ہے- ثبوت قرآن کے اصولی ضوابط، تحقیق حدیث کے فنی قواعد، فقہ وفہم نص کے اصول وغیرہ

[علم شرعی و علم وضعی میں فرق]

یاد رکھیں! علم شرعی کہتے ہی اس کو ہیں جو قرآن و حدیث میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، یا شیخی صحابہ وتابعین کرام سے اور اللہ کے رسول ﷺ سے اخذ ہو کر آرہا ہو، اگر ایسا نہیں تو ایسے علم کو ہم شرعی نہیں "وضعی" کہیں گے-

* سوال یہ ہے کہ اصول فقہ کیا وضعی علم ہے؟

* اصول حدیث کیا وضعی علم ہے؟

* کیا تیسری صدی ھجری میں اصول حدیث کی کتب آنے سے  پہلے اسلاف میں تحقیق حدیث کے اصول  موجود نہیں تھے؟

(=)   اگر بالفرض ایسا ہی ہے تو اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ ہم نعوذ باللہ محدثین کرام کا پورا علم اٹھا کر کسی کوڑے کے ڈبے میں پھینک دیا جائے یعنی یہ تو ان کے پورے فن کو ناکارہ اور فضول  ثابت کرنے والی بات ہوگی -

[ اہم نکتہ]

﴿...۞اصول تفسیر کی کتب

﴿...۞ اصول الدین (عقیدہ) کی کتب

﴿...۞اصول فقہ کی کتب

﴿...۞اصول حدیث کی کتب

﴿...۞اصول تجوید وتلاوت کی کتب

 سب بعد میں مدون ہوئی ہیں، لیکن ان کتب میں تصورات جو پیش کیے گئے ہیں وہ سب سلف کے تصورات ہیں- یہی حال عربی زبان بلکہ تمام زبانوں کی گرامر کا ہے۔

[تدوین کے متعلق اساتلی قاعدہ]

قاعدہ یہ ہے کہ” تدوین ہمیشہ پہلے سے موجود چیز کو صرف طے کرتی ہے“

 [ بات کی تفہیم کی کچھ اور مثالیں]

🌀... عدالت کے اندر کسی مسئلے میں ایک عام سپاہی گواہی دیتا ہے اور اسی واقعے میں ایک ڈی ایس پی یا ایس ایس پی گواہی دیتا ہے.... اگر ڈی ایس پی کی بات عام پولیس کے سپاہی کے خلاف ہو جائے تو ظاہری بات ہے کہ جج ڈی ایس پی کی بات لے گا -

🌀... اسی طرح شیخ الحدیث اور  ایک عام طالب علم کی بات میں اختلاف ہو جائے تو ثبوت میں شیخ الحدیث کی بات طالب علم سے کہیں زیادہ درجے زیادہ قابل اعتماد ہوتی ہے

 [ہمارے دور کے بڑے قرآء حضرات کا موقف]

قاری محمد ابراہیم میرمحمدی اور قاری محمد ادریس العاصم ؒ وغیرہ کی خبر متواتر کے رد کے معاملہ میں الشیخ حافظ ثناء اللہ زاہدی صاحب سے بات ہوچکی ہے- انہوں نے ان سے یہ بات بارہا کہی کہ” قرآن وقراءات عشرہ متواترہ کی ساری بنیاد ہی خبر متواتر پر ہے۔ اگر آپ نے تقسیم تواتر کا ہی انکار کردیا تو تو دس کے بعد والی ابن محیصن، یحییٰ یزیدی، حسن بصری اور سلیمان الاعمش والی چاروں مشہور متفقہ صحیح الثبوت مگر غیر متواتر شاذہ قرآتیں قرآن بن جائیں گی۔ “ ان پہلوؤں کو کسی بھی ایسے دعوی کو پیش کرنے سے قبل پیش نظر رکھیں۔

 [ حقیقت امر میں حدیث کے ضعیف و صحیح ہونے کی بحث]

محدثین کرام کے ہاں جو حدیث صحیح ہوتی ہے کیا ضروری ہے کہ وہ امر واقعہ میں بھی صحیح ہو؟ اور جو حدیث  ضعیف  ہوتی ہے کیا ضروری ہے  کہ وہ امر واقعہ میں بھی ضعیف ہو؟؟؟

یہ بات ا گر کوئی منکرِ حدیث آپ سے کہے تو نہایت خطرناک جملہ ہے، کیونکہ وہ اس بات مراد سے ثابت شدہ اخبار آحاد کی صحت کے مشکوک ہونے کو لیتا ہے، لیکن آپ جانتے ہیں کہ یہ بات اصول حدیث کے بڑے بڑے مصادر میں لکھی ہے، لیکن محدثین کرام کے ہاں اس سے مراد وہ ظن نہیں جو فلاسفہ ومناطقہ کے ہاں ہے۔

... اب سوال یہ ہے کہ صحیح حدیث میں کس معنی میں ضعف کا امکان  ہوتا ہے؟؟؟ جیسے خبرِ شاذ ثبوت میں تو صحیح ہوتی ہے، لیکن اس میں اوثق راوی یا ثقات کی بات کے مقابلے میں امکانِ ضعف موجود ہے، البتہ اگر اس کا ٹکراؤ اوثق یا ثقات کی روایت سے نہ ہو تو پھر یہ امکان ضعف قابل توجہ نہیں رہے گا ۔

... اسی طرح ایک حدیث صحیح ہے، لیکن وہ معلول ہے یعنی ظاھری طور پر اس میں صحیح حدیث کی بنیادی شرائط پوری ہیں لیکن اس میں بعض ایسے باریک عیوب ہیں جو آپ کو نظر نہیں آتے ۔

  [مثال]

 ایک مشہور  واقعہ ہے کہ امام مسلم رح نے کسی محدث سے ایک روایت سنی جو ان کے مطابق صحیح تھی، لیکن وہ محدث اسے ضعیف کہتا تھا، لیکن کہتا تھا کہ میں تمہیں سمجھا نہیں سکتا، کیونکہ علت ایسی نقد کو کہتے ہیں جو ظاھری نہ ہو اور قادح بھی ہو اور عام آدمی کو وہ سمجھ نہ آئے۔ پھر امام مسلم رح امام ابو زرعہ رازی کے پاس گئے، انہوں نے بھی کہا کہ یہ حدیث ضعیف ہے  لیکن ان کو سمجھایا نہیں کہ کیسے ضعیف ہے؟ حتی کہ وہ امام بخاری رح کے پاس آئے ان سے پوچھا، انہوں نے بھی کہا کہ یہ ضعیف ہے۔ پھر انہوں    نے امام مسلم رح کو بات سمجھانے کے لیے خوب محنت کی ۔ (جب ایک استاد کا شاگرد سے خاص تعلق ہو تو وہ زیادہ محنت کرکے شاگرد کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے)... امام مسلم رح کا مشہور جملہ امام بخاری رح کے حوالے سے ہی ہےکہ انہوں نے امام بخاری رح کے سمجھانے کے بعد  کہا تھا: ” دعنی ان اقبّل رجلیک “” اے امام، آپ مجھے اجازت دیجیے میں آپ کے قدموں کو بوسہ دینا چاہتا ہوں “ کہ آپ نے مجھے اتنی گہری بات سمجھائی ہے -

 [معلول حدیث سے مراد]

معلول حدیث ظاھرا بالکل صحیح ہوتی ہے، لیکن اس کے اندر کوئی باریک  خرابی موجود ہوتی ہے -

... اب اسی بات کو دوسری طرف الٹا کر دیکھتے ہیں کہ جب محدثین کرام کہتے ہیں ضعیف حدیث میں بھی صحت کا امکان  ہوتا ہے؟؟؟ ..... محدثین کا قول ہے کہ ضعیف روایت کے لیے ممکن ہے وہ امر واقع میں صحیح ہو، تو اس سے ان کی مراد کیا ہوتی ہے؟!

 [ضعیف لیکن امر واقعہ میں صحیح حدیث کی مثال: حسن لغیرہ روایت  ہے]

حسن لغیرہ حدیث تو ضعیف ہوتی ہے، لیکن مختلف احادیث سے مل کر مجموعی اعتبار سے قوت پکڑ کر صحیح ہوجاتی ہے، بشرطیکہ  اس میں امکان صحت موجود ہو - یہی وجہ ہر طرح کی ضعیف روایت صحیح نہیں ہوسکتی۔ اس کی تفصیلات فن حدیث میں موجود ہیں۔

 [  شیخ زبیر علی زئی رح کا موقف]

شیخ زبیر علی زئی رح یہ بات لکھا کرتے تھے کہ 0+0+0=0 آتا ہے اور کہتے تھے کہ یہی معاملہ ضعیف حدیث کا ہے کہ وہ پچاس بھی مل جائیں تو ضعیف + ضعیف + ضعیف= ضعیف ہی نکلے گا۔ ہم کہتے ہیں کہ ضعیف حدیث کے بارے میں یہ سمجھنا کہ وہ صفر درجہ رکھتی ہے، یہ بات بنیادی طور پر ہی بہت غلط ہے۔ مثلا ضعیف حدیث کی تعریف کتب اصول حدیث میں یہ لکھی ہے : ھو مالم یترَجَّح صدقُ المخبِر به” وہ حدیث جس کی صحت کا امکان راجح درجے میں (یعنی ظن غالب کے درجہ میں) ثابت نہیں ہو سکتا “ [یعنی اس حدیث میں بھی صحت کا امکان موجود ہوتا ہے۔]

 [ ضعف کی اقسام]

اصول حدیث کی کتب میں لکھا ہوا ہے کہ ضعف مختلف طرح کے ہوتے ہیں، کچھ ضعف منجبر ہوجاتے ہیں اور کچھ ضعف منجبر نہیں ہوتے -

(=)   منجبر ہونے کا مطلب  ہے کہ اس ضعیف روایت میں ضعف ایسا شدید ہے کہ وہ شواھد وتوابع سے قوت پکڑنے کے قابل نہیں، لیکن وہ ضعیف روایت جس کا ضعیف خفیف ہو، شدید نہ ہو وہ دیگر اپنی جیسی روایات سے قوت پکڑ جاتی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر اس کمزور ضعف والی روایت میں صحت کا پہلو سرے سے ہی نہیں موجود تھا وہ حدیث دیگر روایات سے مل کر قوت کیسے پکڑ سکتی ہے؟!

 [تصور تواتر کی تنقیح پیش کرنے والوں میں بڑا نام شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور صاحب سبل السلام امیر صنعانی کا ہے]

صاحب توضیح الافکار تواتر کی عددی تعریف کے سب سے بڑے ناقدین میں شامل ہیں، لیکن  انہوں نے بھی تصور تواتر کا رد نہیں کیا اور کہا ہے :*  تواتر میں اصل چیز گنتی نہیں بلکہ  ایک خاص قسم کے یقینی علم کا حصول ہے، جو عام خبر واحد سے  حاصل نہیں ہوتا۔

*  اور جب کوئی روایت خبر واحد کے اندر سے روایت ہوتے ہوتے پہلے درجہ اعتماد (یعنی ظن غالب) کو حاصل کرے، پھر مزید قوت پکڑتے پکڑتے یقینی وبدیہی علم تک لوگوں کو جا پہنچائے، تو اسے متواتر روایت  کہیں گے، چاہے وہ تواتر کی فنی تعریف (یعنی تواتر الاسناد / عددی توات) پر پورا نہ بھی اترے -

 [ خبر متواتر میں عدد کی بحث اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رح]

متواتر میں عددی وسندی تواتر کے متعلق جو تنقیدی بحثیں کرنے والی بڑی شخصیات ہیں ان میں حافظ ابن تیمیہ رح سرفہرست ہیں۔ مجموع  الفتاوی کی اٹھارویں جلد میں انہوں تواتر کو صرف مخصوص عدد میں محصور قرار دینے والے لوگوں پر بڑی بحث کی ہے کہ وہ بڑے غافل اور بے سمجھ ہیں کہ انہوں نے حصول یقین کو صرف روایت میں عددی اکثریت کے ساتھ محصور سمجھ لیا ہے، حالانکہ تصور تواتر کا حصول کبھی روایت کے راویوں کی تعداد کی کثرت کی وجہ حاصل ہوتا ہے اور کبھی معدودے چند راویوں میں پائے جانے والی صفات کی قوت کے سبب ہوتا ہے۔ اسی شیخ الاسلام رح کے ہاں تواتر کی تعریف مارواہ عدد کثیر تسحیل العادۃ تواطئھم علی الکذب کے بجائے صحیح طور پر یوں کی ہے: ما أفاد القطع فھو المتواتر۔

 [ محدثین کرام کے ہاں تواتر سے مراد]

 محدثین کے ہاں تواتر سے مراد روایت وخبر میں اعلی درجے کے یقینی علم کا حصول ہے، جس میں سچ صرف امکان غالب میں نہیں، بلکہ کلی درجہ کا شامل ہو کہ چھوٹ کا پہلو بالکل منقطع ہو جائے، اس لیے تواتر کی تعریف میں بنیادی ترین شرط "علم قطعی" کا حصول ہے، اور جس روایت سے صرف ابتدائی درجے کا علم (اعتماد) حاصل ہو ایسی روایت متواتر  نہیں کہلاتی -

 [ بدعتیوں کے کام]

     اہل بدعت نے حدیث کے قبول و رد کا مرکزی معیار خبر مقبول وخبر مردود کے بجائے روایت کے متواتر یا خبر واحد ہونے کو بنا دیا ہے اور کوئی روایت بھی سامنے آئے تو قبول حدیث کی شرائط خمسہ کو دیکھنے کے بجائے وہ حدیث متواتر ہے یا خبر واحد اس غلط میزان پر حدیث کو پرکھتے ہیں - یاد رکھیں! اس انداز تحقیق کا کوئی محدث کبھی بھی، کسی دور میں کبھی  قائل نہیں گزرا۔

 [ محدثین کے ہاں کسی حدیث پر عمل کرنے کا بنیادی پیمانہ]

محدثین کرام کے ہاں کسی حدیث پر عمل کرنے کا بنیادی پیمانہ ومیزان یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ وہ روایت ” خبر مقبول  ہے یا مردود؟!  “ ان کے ہاں کسی بھی روایت کی  قبولیت کی 5 شرائط ہیں، جن پر حدیث کو پرکھ کر انجام کار مقبول یا مردود قرار دیا جاتا ہے۔         

 [ علم کا ابتدائی درجہ شک اور انتہائی درجہ ایسا یقین ہے جو امر واقع کے مطابق بھی ہو، دلائل کے بھی مطابق ہو اور اسے کسی طرح بھی متزلزل نہ کیا جاسکے۔]

علم یقین کا مطلب ہے کہ روایت ظن بمعنی شک سے نکل کر پہلے ظن بمعنی ظن غالب کے مقام پر پہنچے، پھر مزید قوت پکڑتے ہوئے مرجوح درجہ میں بھی روایت کے جھوٹ یا ضعیف ہونے کا امکان بھی منقطع ہوجائے۔ باقی مناطقہ کے ہاں علم کی بھی 7 بنیادی اقسام ہیں، جن میں پہلا شک، پھر ظن یعنی ظن غالب، پھر ظن مرجوح یعنی وہم اور پھر آگے یقین کے کل چار درجے ہیں:

* ان میں ایک اعلی درجے کا یقین ہوتا ہے۔

* ایک عام درجے کا یقین ہوتا ہے۔

* ویسے ایک بات یہاں یہ بھی کلئیر ہوجائے کہ مناطقہ کے ہاں جسے وہ ظنی علم بمعنی ظن غالب والا ذریعہ قرار دیتے ہیں، محدثین کرام کے ہاں ہمارے رواجات میں بھی وہ اعتماد اور یقین کا ہی ایک درجہ ہے، اگرچہ اس درجہ علم کا متواتر روایت سے حاصل شدہ درجہ سے کافی فرق ہوتا ہے۔

[ سمجھنے کی بات]

اگر حنفیوں نے اور معتزلیوں نے روایت کے رد وقبول کے معاملہ میں غلط معیارات قائم کرلیے ہیں تو آپ انہیں ضرور غلط  کہیں، لیکن محدثین کے فن او مسلمہ مصطلحات پر تو آنچ نہ آنے دیں-

اگرچہ علم الحدیث میں  تواتر عددی  کی کوئی واضح مثال نظر نہیں آتی، لیکن یہ بات سمجھنے والی ہے کہ علمِ قرآءات میں تواترِ اسنادی وعددی تواتر  کی سیکڑوں مثالیں موجود ہیں- مثلا اہل فن کے ہاں معروف ہے کہ دس متواتر قراءات میں سے قراءات سبعہ سب کی سب تواتر کی اصطلاحی تعریف سے ثابت ہیں، جبکہ بعد والی تین قراءات یعنی ابو جعفر، یعقوب اور خلف العاشر کی مرویات بالعموم خبر واحد سے ثابت ہیں، لیکن یہ خبر واحد ایسی ہے جو بے شمار اضافی قرائن سے ملنے کی وجہ سے تواتر جیسا علم ویقین بہم پہنچاتی ہے۔

(=)   اگر آپ نے تقسیم تواتر کے  بارے میں تنقیدی بحث ہی کرنی ہے اور آپ حنفیوں اور معتزلہ کا رد کر رہے ہیں تو شروع میں کہہ دیں، واضح کر دیجیے کہ میری تمام گفتگو مخصوص دائرے وسیاق میں مخاطبین سنیں، میری گفتگو کے مخاطب قاریوں اور محدثین کے تواتر کے بارے میں مسلمہ نظریات وتصورات نہیں ہیں، میں تو صرف اہل بدعت کی باتوں کا مخالف ہوں۔

خلاصہ کلام

 گزشتہ ساری بحث سے پتہ چلتا ہے لفظ تواتر بطور روایت بھی گزشتہ کئی صدیوں سے چلتا آرہا ہے اور بطور اصطلاح بھی چلتا آ رہا ہے۔

 [ "ظن" کے دو بڑے تصورات]

ویسے تو ظن عربی زبان اور قرآن وحدیث میں کل 5 الگ الگ معانی میں استعمال ہوا ہے، جس کی تفصیل کے لیے ماہنامہ محدث کے امین احسن اصلاحی نمبر میں مدینہ منورہ یونیورسٹی میں حدیث کے معروف استاد مولانا عبد الغفار حسن رحمہ اللہ کے رقم کردہ مستقل مضمون میں دیکھیں، لیکن یہ صرف دو معانی پر ہم بات کرتے ہیں:

1. ظن بمعنی شک وشبہ والی بات

2. ظن بمعنی ظن غالب کہ امر واقعی میں جس پر بے شمار شرعی وعرفی مسائل فیصلوں کی بنیاد رکھی جاتی ہے، اسے اہل علم فرماتے ہیں کہ جسے مناطقہ ظن غالب کہتے ہیں ہمارے عرف وعادات میں وہ بھی اعتماد (یقین) کا ایک مضبوط درجہ ہے۔

۞  ظن بمعنی رجحان۔ غالب (امر واقعہ کا یقین) وہ ہوتا  ہے، جس تک بندہ تحقیق کے بعد پہنچے۔ یعنی وہ خبر میں سچ و جھوٹ دونوں پہلوؤں کی تحقیق کے بعد پورے اعتماد۔ کے ساتھ کسی ایک پہلو کا فیصلہ کردے۔

۞  ظن کی دوسری قسم وہ ہے، جو امر واقعہ میں قابل اعتماد (یقین) کا فایدہ دے۔

 یاد رکھیں! جس یقین تک آپ غور و فکر اور تحقیق کے بعد پہنچیں وہ بعض پہلوؤں سے اس یقین سے زیادہ بڑھ کر ہوتا ہے جس تک انسان بغیر غور و فکر وتحقیق کے پہنچے- اسی لیے قرآن پاک میں بنیادی بڑے عقائد کو جہاں جہاں بیان کیا گیا ہے وہ "ظن" بمعنی یقین سے بیان کیا گیا  ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے :

||| ویظنون أنھم ملقوا ربھم  |||

📌اب جو شخص آخرت کا انکار کرے گا وہ کافر ہے، لیکن دیکھیں کہ یہاں اللہ نے اس یقینی اعتقاد کو لفظ ظن بمعنی یقین سے بیان کیا ہے -

        [ گرامر کا قاعدہ]

لغت کا معروف قاعدہ ہے کہ "ظن" کے بعد أَنَّ یا اِنَّ آجائے تو وہ ظن بمعنی یقین ہوا کرتا ہے- یعنی ایسے ظن سے مراد وہ یقین  ہے  جس تک پہنچے کے لیے  آپ کو  بسا اوقات کئی سال تحقیق میں لگے ہوں-

📖...  محدثین کرام نے جو حدیث کو صحیح کہا ہوتا ہے پتہ نہیں کتنے سال پرکھنے کے بعد کہا ہوتا ہے۔ یہ ظن بمعنی یقین کا مطلب ہے۔ اور حدیث ظنی بمعنی مشکوک شے ہوتی ہے، ہم اس ظنی علم کے قائل ہیں۔

["متواتر خبر" کا عقلی وعرفی ثبوت]

امریکہ دنیا میں موجود ایک ملک ہے، آپ میں سے اکثر نے خود نہیں دیکھا، لیکن آپ کو اتنے زیادہ لوگوں نے اس کی موجودگی کی خبر دی ہے کہ یہ متواتر درجہ کی روایت ہے جس کا علم ہمیں قطعی الثبوت ذریعے سے ہوا ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ امریکہ دنیا میں ہے ہی نہیں، تو آپ کو لوگ پاگل کہیں گے۔

 [ محدثین کے ہاں متواتر روایت کی تعریف ]

ایسی حدیث جس کو راویوں کی ایسی جماعت روایت کرتی ہے جس کا جھوٹ پر اکٹھا ہونا عقلاً و عادتا ناممکن ہو📌... عادتا کا مطلب کیا ہے اس پر غور کرنا چاہیے - اس سے مراد  ہمارے رواجات کے  اندر/ کسی چیز کے اندر یقین پیدا کرنے کا اصول ہے - یاد رہے! یہاں فلسفے کی بات نہیں ہورہی - فلسفے میں کو مرضی بات کی جا سکتی ہے - یہاں یقین سے مراد وہ یقین ہے جو کسی چیز کو دیکھ کر  پیدا ہو ۔

•||   شیخ ثناء اللہ زاہدی صاحب حفظہ اللہ نے خبر واحد کو مفید للعلم مان لیا ہے حالانکہ یہ یقین سے  بہت کم تر درجہ ہے -

[مثال]

اگر ایک آدمی سقہ ہو اس کی بات سے یقین ہو سکتا ہے تو جو ایک ہزار آدمی ہے وہ سقہ ہو اس کی بات سے تو بالأولی یقین حاصل ہوگا-✔️ہمارے ہاں یہی دلیل کافی ہے کہ ایک بندہ امام احمد بن حنبل رح کھڑے ہو جائیں

 [غلط جملہ]

محدثین کے تواتر کا اگر کوئی صحیح تصور ہے تو وہ اجماع ہے

 یاد رہے! اجماع کا تحقق تواتر سے کروڑ گناہ مشکل ہے - نیز  اکثر سلفی  اجماع کے قائل نہیں ہیں -

✔️غزالی نے یہاں تک لکھا ہے اجماع سے جو چیز ثابت ہو وہ کبھی یقین دلیل نہیں ہوسکتی وہ ہمیشہ ظنی دلیل ہی ہو گی -

شیخ ثناء اللہ زاہدی صاحب حفظہ اللہ کی کتاب میں تقریبا  آدھے دلائل اصول فقہ کے اور آدھے دلائل عمومی کتب کے  ہیں (علمی انداز تو یہ ہے کہ فن یعنی فن حدیث کی کتب کے حوالے ہوں) - [حافظ شفیق الرحمن زاہد صاحب حفظہ اللہ]

 [ اجماع اور خبر میں فرق]

اجماع اصول فقہ کی اصطلاح ہے کتاب و سنت سے جب آپ استدلال کرتے ہیں وہ دو طرح کا ہوتا ہے

1. اجماعی استدلال [وہ استدلال جسے تمام علماء بالاتفاق ایک ہی طرح سے نکالتے ہیں... یاد رہے! یہ اصطلاح فقھاء کی ہے ]

2. غیر اجماعی استدلال [اگر کوئی بندہ کتاب و سنت سے استدلال کرے اور اس مسئلے میں اس اکیلے کی رائے ہو یا علماء کے مختلف اقوال ہوں تو یہ غیر اجماعی استدلال ہے]

 [اجماعی استدلال کی مثال]

* حضرت ابوبکر ؓ مسلمانوں کے پہلے خلیفہ ہیں

* حضرت عمر ؓ دوسرے خلیفہ ہیں

* حضرت عثمان ؓ تیسرے خلیفہ ہیں

* حضرت علی ؓ چوتھے خلیفہ ہیں

اگر کوئی بندہ اس بات کو حدیث بنا کر بیان کرے تو یہ موضوع ہے اس نے اللہ کے رسول ﷺ پر بہتان باندھا ہے لیکن امت کا اس پر  اجماع ہے-اس سے معلوم ہوتا ہے اجماع خبر کی بحث نہیں ہے

متواتر اور خبرآحاد کی بحث

 [متواتر حدیث کی تعریف]

 بطور خبر نسبت الی الرسول کے اعتبار سے کچھ احادیث ایسی ہیں جن کے بارے میں ہزار فیصد یقین ہے کہ یہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے اسے متواتر کہتے ہیں۔

 [خبر واحد کی تعریف]

خبر کے بارے میں وہ چیزیں جن کے بارے میں دو رائیں ہیں یعنی  ایک شخص کہتا ہے کہ یہ ﷲ کے رسول ﷺ سے ثابت ہے اور دوسرا کہتا ہے یہ ضعیف ہے تو اسے خبر واحد کہتے ہیں

یاد رہے!  تواتر سے امت کے عمل کا تعلق سے نہیں ہے

🖊️ جاوید غامدی کہتا ہے تواتر عملی وہ ہے جس مسئلے  پر امت کا دور میں اجماع رہا ہو اور ہمارے علماء نے اسے حدیث کا منکر کہا ہے کیونکہ وہ خبر والی سنت کو نہیں مانتا جو سنت اس نے بنائی ہے وہ اس کی من گھڑت سنت ہے - غامدی کی من گھڑت  سنت کی بنیاد تواتر عملی ہے ۔

 ⚠️[یاد رکھنے والی باتیں]

﴿...۞ تواتر خبر کی بحث ہے

﴿...۞ خبر وحی ہوتی ہے

﴿...۞ اجماع، استدلال اور استخراج کی بحث ہے

﴿...۞ اجماع وحی نہیں ہوتا،  اجماع قطع الدلالہ کا مسئلہ ہے اس کا ثبوت سے کوئی تعلق نہیں -

 ثبوت سے مراد یہ ہے کہ : کسی بات کو نسب الی الرسول آگے بڑھایا جائے، جو چیز رسول ﷺ کی نسبت سے ثابت ہو اسے ثابت کہتے ہیں اور ثابت میں دو قسمیں ہیں

1. قطعی ثابت/یقینی ثابت ہو [خبر کے اندر ایک پہلو منقطع ہو جائے تو اسے کہتے ہیں اس میں یہ  یقین پیدا ہو گیا ہے، یہ قطعی ثبوت ہے ]

2. ظنی ثابت ہو

📌...    تواتر اسی کا نام ہے کہ اس میں ایک پہلو منقطع ہو گیا اور دوسرا طے ہوگیا، جو پہلو طے کیا وہ یقین ہے اور جو منقطع ہوا وہ شک ہے۔

ابن تیمیہ رح کہتے ہیں:

 وہ لوگ بہت غافل ہیں جنہوں نے تواتر کو عدد سے محصور کیا ہے  افراد کی کثرت کو یقین کا پیمانہ بنا دیا ہے کہتے ہیں

* بسا اوقات یقین افراد کی کثرت سے حاصل ہوتا ہے

* بسا اوقات یقین افراد میں موجود صفات کی قوت سے پیدا ہوتا ہے یعنی فرد ایک  ہوتا ہے لیکن اس کا مقام 50 افراد کے برابر ہوتا ہے

اس کا مطلب ابن تیمیہ ؒ تواتر عددی کے قائل ہیں، اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ عدد سے یقین پیدا ہوتا -

صنعانی رح کی نہایت عمدہ بات ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ :

  تعداد کو آپ اصل نہ بنائیں

آپ  یقین کو بنیاد بنائیں

بسا اوقات 3 سے بھی یقین کا معاملہ جاتا ہے

اور بسا اوقات  300 سے بھی نہیں آتا  -

 [کسی موقف کو پیش کرنے کا علمی انداز]

محدثین کے اقوال کو جمع کر کے آپ لکھیں تمام پر تحقیق کریں پھر انہیں میں سے موقف پیش کریں کہیں کہ یہ بات درست ہے-

 [ مثال سے سمجھیے]

آپ کہیں کہ تواتر کے بارے میں علمائے محدثین کے 5 موقف ہیں

* پہلی تعریف یہ ہے اور اس پر یہ اعتراض ہے

*  دوسری تعریف  یہ ہے اور اس پر یہ اعتراض ہے

*  تیسری تعریف یہ ہے اور اس  پر یہ اعتراض ہے

✔️   یہ چوتھی تعریف ہے جو صحیح ہے اور  محققین میں سے فلاں فلاں اس کا قائل ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے -

 🪄  [ یہ غلط طریقہ ہے ]

کہ آپ کہیں اس بارے میں 50 محدثین نے بات کی ہے اور سارے ہی فضول ہیں میں بتاتا ہوں صحیح بات کیا ہے -

🪄 [صحیح طریقہ یہ ہے  ]

[1]  باقاعدہ اقوال بیان کریں

[2] اقوال کا تجزیہ کریں

[3] دلائل کی روشنی میں آپ تحقیق کریں اور ایک قول کو بیان کریں کہ یہ ٹھیک ہے

 [ اہم نکتہ/اصولی بات]

محققیین کا تواتر کیا ہے اسے آپ  تلاش کرنے کی کوشش کریں اور تواتر کا جو فضول طریقہ ہے، اس بارے میں جو اقوال ہیں ان کو بھی آپ لکھیں اور ان کا رد کریں -

 [خاص نصیحت]

شیخ سلیمان روہیلی کا لیکچر ضرور سنیں ۔ انہوں نے دو گھنٹے بحث کے بعد موقف یہ پیش کیا ہے کہ اصول فقہ میں جہاں کوئی بات آئی ہے اس میں محققین کا تصور تو موجود ہے آپ اسے لے لیں اور کلامی و منطقی بات کو چھوڑ دیں -

📌... یعنی آپ یہ کہیے کہ تواتر کا فلاں تصور غیر تحقیقی ہے اور یہ تصور تحقیقی ہے آپ تحقیقی لیں اور غیر تحقیقی چھوڑ دیں

[آئمہ قرآءت میں نقد کی مثال]

ابو شامہ بہت بڑے امام ہیں ان پر ابن جزئی رح نے کتاب لکھی ہے [موجد المقرین] ابو شامہ یہ کہتے ہیں کہ قرآن پاک کے لیے تواتر سندی ضروری ہے - ابن جزئی ؒ نے پوری کتاب لکھی ہے کہتے ہیں مجھے ابو شامہ کی اس بات سے اتفاق نہیں ہے کیونکہ قرآءات میں بے شمار قرآتیں ایسی ہیں جو خبر واحد سے ثابت ہیں - ابو شامہ کا یہ  کہنا کہ ہر ہر جزئی تواتر سے ثابت ہے اس سے بے شمار قرآءاتیں ختم ہو جائیں گی - 

[ثبوت قرآن  کا صحیح ضابطہ]

زیادہ سے زیادہ وہ روایت متواتر ہو

کم ازکم وہ روایت خبر واحد ہو

صحت سند سے ثابت ہو

اور تین قرآئن کی حامل ہو

📶ثبوت قرآن میں تین قرآئن کونسے ہیں؟!

1.     .مصاحف عثمانی کے موافق ہو

2.      عربی لغات کے مطابق ہو

3.      .قرآء حضرات کا تلقی بالقبول اسے حاصل ہو (جسے اجماع کہتے ہیں)

       [علمی بات ]

(=)قرآءات عشرہ ساری متواترہ نہیں ہیں

قرآءات عشرہ میں قرآت سبعہ متواترات میں سے ہیں

(=) تین الخبر الواحد محتف بالقرآئن سے حکمی تواتر کے درجے میں ہیں -

(=) چار خبر واحد ہیں جنہیں حکم تواتر نہیں مل سکا ویسے  یہ ساری صحیح ہیں

 [تین اور چار قرآءات میں فرق]

ایک کو الخبر الواحد محتف بالقرآن سے حکمی تواتر کا درجہ ملا ہے اور دوسری صرف صحیح کے درجے پر ہے -

 [ نصیحت کی بات ]

علم ایسی چیز ہے جس کے بارے میں علماء نے نصیحت کی ہے کہ” علم کبھی کسی ایک عالم سے حاصل نہیں کرنا چاہیے “ ہمیشہ آپ کو ایک سے  زیادہ علماء سے بات پوچھنی چاہیے اس سے آپ کو تنقیح کا موقع ملتا ہے  - علم اصل میں تنقیح کا نام ہے جنرل(عام) بات تو کوئی بھی کر دیتا ہے اور یاد رکھیں! شیطان تو سب کے ساتھ ہے وہ بڑے عالم کے اوپر بھی حملہ کر سکتا ہے اور چھوٹے عالم پر بھی حملہ کر سکتا ہے -

📌...  علماء کی نشستوں میں بیٹھیں تو پتہ چلتا ہے علماء کے آپس میں بہت سے اختلافات ہیں یاد رہے! اس سے مراد علمی اختلافات ہیں   عام اختلافات نہیں ہیں -

[ نصیحت کی بات ]

علماء کا کہنا یہ ہے کہ دو عالم بحث کر رہے ہوں تو اس  نشست میں بیٹھ کر آپ کو جو بات سمجھ آتی ہے جو فائدہ ہوتا ہے وہ آپ کو  دو دو مہینے کے مطالعے  سے بھی نہیں ہوتا.

⚠️یہ بات خطرناک ہے کہ آپ ایک مسئلے کو سلجھاتے سلجھاتے تین مسئلوں کو الجھا دیں

 

        [حاصل کلام]

ایک بات واضح ہوگئی کہ خبر واحد اور متواتر کی تقسیم بنانے کا کوئی مطلب نہیں بنتا، جب تک کسی محدث کی بات نہ آجائے -  اس تقسیم کو بنانے کا مطلب ہے کہ محدثین ہزار سالوں سے غلطی پر غلطی کیے جا رہے ہیں؟!  ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ہمیں غلطی لگ سکتی ہے، ابن حجر اور ابن نووی اور دیگر محدثین کا مقام ہم سے بہت اونچا ہے ہم تو ان کی ٹانگ کے برابر نہیں ہیں

 امام شافعی نے رح نے لکھا ہے میں نے قرآن پاک کا 300 مرتبہ مطالعہ کیا ہے یہ جاننے کے لیے کہ قرآن پاک میں گمراہی سے رکنے کا سب سے بڑا پیمانہ کیا ہے - کہتے ہیں ہر دفعہ مطالعے پر یہ آیت میرے سامنے آئی ہے :

وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَ یَتَّبِـعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَ نُصْلِهٖ جَهَنَّمَؕ-وَ سَآءَتْ مَصِیْرًا ﴿سورۃ النساء115﴾

   📌... سبیل المومنین جو کہ ہمارے اہل علم کا مسلسل چلتے آنے والا عمل ہے اسے ہم کیسے چھوڑ سکتے ہیں؟! اور یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ سارے ہی کلام اور منطق میں بہہ گئے - جو یہ کام کرتا ہے اس کی آگے وعید دیکھیں کتنی سخت ہے۔ نیز اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ منہج اور مسلک کی کتنی اہمیت ہے۔

[ثبوت قرآن  کا صحیح ضابطہ]

زیادہ سے زیادہ وہ روایت متواتر ہو-

کم ازکم وہ روایت خبر واحد ہو-

صحت سند سے ثابت ہو-

اور تین قرآئن کی حامل ہو-

ثبوت قرآن میں تین قرآئن کونسے ہیں؟!

1.مصاحف عثمانی کے موافق ہو -

2.عربی لغات کے مطابق ہو-

3.قرآء حضرات کا تلقی بالقبول جسے اجماع کہتے وہ اسے حاصل ہو -



4

عن الكاتب

Peace Center

التعليقات


call us

اگر آپ کو ہمارے بلاگ کا مواد پسند ہے تو ہم رابطے میں رہنے کی امید کرتے ہیں، بلاگ کے ایکسپریس میل کو سبسکرائب کرنے کے لیے اپنی ای میل درج کریں تاکہ پہلے بلاگ کی نئی پوسٹس موصول ہو سکیں، اور آپ اگلے بٹن پر کلک کر کے پیغام بھیج سکتے ہیں...

تمام حقوق محفوظ ہیں۔

Peace Center