Khabar e Mutbar or Aahaad ki Taqsim Part 2
Peace Center Peace Center
recent

ہیڈ لائنز

recent
random
جاري التحميل ...

Khabar e Mutbar or Aahaad ki Taqsim Part 2

 



 کیا اہل فن (محدثین کرام) کے ہاں خبر متواتر اور خبر آحاد کی تقسیم متنازع ہے؟! 
[علمائے روایت قراء اور محدثین کے مناہج کی روشنی میں]
( Part : 2)
🎙️اسپیکر : فضیلة الشیخ ڈاکٹر حافظ حمزہ مدنی حفظہ اللہ
مدیر التعلیم جامعہ لاہور الاسلامیہ [رحمانیہ] 
📍 الحکمة انٹرنیشنل لاہور، پاکستان

Watch🔛 : https://www.facebook.com/share/v/fzP5VpjxFh5tEJu2/?mibextid=qi2Omg


بِســـــــــــمِ ﷲِالرَّحمٰنِ الرَّحِيم

 [خبرِ صحیح کے درجات] 

محدثین کے ہاں خبرِ صحیح (مقبول)  کے دو بنیادی درجے ہیں:

1.   خبرِ مقبول محتف بالقرآئن

2.  خبرِ مقبول بغیر محتف بالقرآئن 

  ⚠️ امام ابن حجر رح نے شرح نخبہ میں لکھا ہے اور دیگر کئی معتبر ماہرین فن نے لکھا ہے کہ 

” الخبر الواحد المحتف بالقرآئن “ سے ایسا علم حاصل ہوتا ہے جو خبر متواتر سے حاصل ہوتا ہے- 

حافظ ابن صلاح نے اپنے مایہ ناز مقدمہ ابن صلاح می لکھا ہے کہ متواتر حدیث بنیادی طور پر خبر مشہور کی ایک ذیلی قسم ہے اور تواتر الاسناد کی کوئی تطبیقی مثال پیش کرنا ممکن نہیں، زیادہ سے زیادہ اگر ہم کسی حدیث پر یہ حکم لگا سکیں تو وہ صرف یہ حدیث ہے :

|||  من کذب علی متعمدا فلیتبوا  |||

➿... اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اس حدیث کے پہلے طبقے میں 62 صحابہ ہیں جنہوں نے اسے نقل کیا ہے، لیکن کہتے ہیں کہ اگر اس کو بھی آپ صحیح معنوں میں لیں تو تمام طبقاتِ سند میں تواتر کی تعریف متحقق نہیں ہوتی یا تواتر کا مخصوص عدد نہیں ملتا۔ گویا یہ ایک حدیث بھی تواتر کی عام تعریف پر پورا نہیں اترتی، البتہ اس میں الخبر الواحد المحتف بالقرائن کی قبیل کا حکمی تواتر پایا جاتا ہے۔

 [ مضبوط ترین روایات کے حوالے سے تین موقف] 

 [1]    بعض  کہتے ہیں اگر آپ نے کسی حدیث کو مضبوط ترین ثبوت والی روایت کہنا ہے تو وہ صرف ایک روایت مَن کَذَب ... ہے۔

 [2]  بعض اہل علم کے مطابق ایسی روایات کل 6 ہیں، جو مضبوط ترین ہیں:

1.  انما الاعمال بالنيات 

اس روایت کے مجموعی طور پر طرق بہت زیادہ ہیں اور سب طرق میں اس کے یہ الفاظ تک محفوظ ہیں ۔ یعنی جب مختلف روایتوں کو دیکھا جائے تو سب میں جو مشترک الفاظ ملتے ہیں وہ ہیں: انما الاعمال بالنيات ۔۔۔ بلکہ یہ سب 6 روایات اسی جیسی ہیں، اسی لیے بعض کتب اصول میں یہ لکھا ہے کہ یہ چھیئیوں روایات کے الفاظ بھی تواتر سے ثابت ہیں۔ 

2.  من کذب علی متعمدا فلیتبوا 

3.  انزل القرآن علی سبعۃ أحرف کلہا شاف کاف... 

 اس حدیث کے طرق وسندیں ایک دفعہ  گوگل سے ہم نے دیکھیں تو صرف یہی الفاظ یعنی انزل القرآن علی سبعۃ أحرف کے تقریبا 700 طرق کھل کر سامنے آگئے۔ یہ حدیث مختلف حدیث کی کتابوں میں ایک سند سے نہیں سینکڑوں سندوں سے آرہی ہے اور اس کے ناقلین صرف صحابہ کرام کے طبقہ میں 24 افراد ہیں۔ 

○○؞؞   یہ روایات تواتر سندی تو نہیں بنتیں لیکن اگر مجموعی طور پر اس انداز پر احادیث کو دیکھا جائے تو 6 احادیث تو زیادہ نمایاں ہیں ، ورنہ بے شمار طرق کی بنا پر تواتر کا مقام حاصل کرنے والی روایات سیکڑوں میں چلی جاتی ہیں۔  ○○؞؞

🌀... [ علم قرآءات میں تواتر کی مثال ] 

  آپ قرآن پاک کو لے لیں روایت امام حفص  رح سے نقل ہو رہی ہے - امام حفص کی قرآت ہر زمانے میں، ہر طبقے میں کروڑوں اربوں لوگ پڑھتے آ رہے ہیں۔ پاکستان کے عوام، سعودیہ عرب کے لوگ، خلیج کے ممالک ڈال لیں سارے ملا کر دنیا میں تقریبا 1 ارب سے زائد لوگ روایت حفص پڑھ رہے ہیں - اب یہ بات ذہن نشین رہے کہ سند کے اعتبار سے اگرچہ امام حفص کی روایت خود خبر واحد ہے لیکن ہر دور میں، ہر طبقے کے اتنے لوگ اس روایت کے حافظ ملتے ہیں اور پڑھنے والے ملتے ہیں کہ ” لا یعد ولا یحصی۔ “ اب کہنے کو یہ روایت خبر متواتر کی مخصوص فنی تعریف پر پوری نہ بھی اترتی ہو لیکن جس عمومی مفہوم میں محدثین کرام کئی احادیث کو متواتر کہتے ہیں، اس پہلو سے تمام قراءات متواترہ کنفرم متواترات میں شامل ہیں۔ بلکہ بعض اہل فن نے تو لکھا ہے کہ تواتر کی مختلف اقسام (تواتر الاسناد، تواتر الاشتراک، تواتر لفظی، تواتر معنوی وغیرہ) میں سب اعلی اور مضبوط درجہ کا یقین "تواتر طبقہ" سے حاصل ہوتا ہے اور تمام قراءات سبعہ وعشرہ تواتر طبقہ کے بالا سے بالا ترین معیارات میں سے بھی سب بالا ترین معیار پر متواترات میں شامل ہیں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؞؞⤵️؞؞؞۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [امام سیوطی رح کا موقف] 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؞؞؞⤵️؞؞؞۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امام سیوطی کی کتاب تدیب الراوی جہاں فن حدیث کی بڑی کتب میں شامل ہے اور اس میں انہوں نے بھی خبر متواتر کی عام تعریف وہی لکھی ہے جو کثرت عدد کو تواتر کی بنیاد بتاتی ہے، لیکن دوسری طرف عملا وہ خود جب متواتر احادیث کے مجموعہ پر مشتمل اپنی کتاب  : [الازھار المتناثرۃ فی الاخبار المتواترہ] لکھتے ہیں اور متواتر حدیثیں جمع کرتے ہیں تو سیوطی رح نے کئی دیگر اخبار آحاد کی طرح حدیث ” لا نکاح الا بولی  کو بھی متواترات میں شامل کیا ہے, حالانکہ بالاتفاق یہ حدیث خبر واحد ہے۔  اس حدیث کو انہوں نے متواتر اس لیے قرار دیا کیونکہ اس کا مضمون بے شمار روایات میں موجود یکساں موضوع یعنی قدرِ مشترک سے ثابت ہے۔ یعنی اس مضمون کی احادیث کتب روایات میں اس قدر زیادہ ہیں کہ مجموعی طور پر نکاح میں ولی کا مسئلہ کتاب وسنت میں متواترات سے ثابت ہے - 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؞؞؞⤵️؞؞؞۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [  تواتر الاشتراک کی اصطلاح] 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؞؞؞⤵️؞؞؞۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تواتر اشتراک یعنی روایت بذاتہ تو خبر واحد ہو لیکن جو موضوع اس میں زیر بحث ہو وہ بے شمار روایات میں مشترک طور پر پایا جائے تو اسے تواتر اشتراکی کہتے ہیں۔ ... اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے آپ کتب احادیث میں کتاب الصلوۃ پڑھتے ہیں تو سینکڑوں احادیث اس کتاب میں محدثین کرام لے کر آتے ہیں، ہر حدیث میں مختلف چیزوں کا ذکر ہوتا ہے، مثلا 

* کسی میں رکوع کا ذکر ہے

* کسی میں قیام کا ذکر ہے 

* کسی میں جلسہ استراحت کا ذکر ہے 

* کسی میں قرآءت کا ذکر ہے وغیرہ وغیرہ 

🖊️؞؞♡ اب ان ہزاروں احادیث میںایک قدر مشترک بہرحال ثابت ہے، وہ یہ ہے کہ دین میں "نماز" کوئی شرعی حکم ہے اور رکوع، قیام، قومہ، تشہد، رفع الیدین وغیرہ سے متعلقہ ہر روایت کم ازکم نماز کا دین میں وجود ثابت کر رہی ہے اور بتا رہی ہے کہ اقامت صلوۃ دین کا  ایک اہم ترین رکن ہے، جس کی یہ ساری تفصیلات ہیں اور ہر حدیث اس چیز کو مشترکہ طور پر ثابت کر رہی ہے کہ نماز دین کے اندر ایک ضروری درجے کا رکن ہے -  اور یہی قرآن کریم کی بے شمار آیات بھی ثابت کر رہی ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: 

||| اقیموا الصلوۃ واتوا الزکوۃ |||

 🌀... [ نہایت اہم اور بار بار پڑھی جانے والی حدیث کی مثال] 

📌؞؞؞○انما الاعمال بالنيات کی بات جو پہلے بھی ہوئی ہے، محدثین کے ہاں اس کے کل 700 طرق ہیں، لیکن یہ حدیث اپنی اساس میں خبر واحد کے ادنی ترین درجہ غریب حدیث میں شامل ہے، بلکہ یہ

1.  پہلے طبقے میں بھی غریب ہے 

2.  دوسرے طبقے میں بھی غریب ہے 

📌   خبر واحد میں تو یہ حدیث غریب کے بعد عزیز تو کیا مشہور میں بھی شامل نہیں،     لیکن دوسری طرف محدثین کرام نے اسے تواتر کی بڑی ترین مثالوں میں شمار کیا ہے، کیونکہ اعمال میں نیت کی اہمیت کا موضوع قرآن وحدیث کے سیکڑوں ہزاروں نصوص کا مرکزی نکتہ ہے۔  

❂▬▬▬؞؞؞؞؞๑۩۞۩๑؞؞؞؞؞▬▬▬❂

 [ تواتر کی بحث کا آغاز اور اس کا بنیادی تصور] 

❂▬▬▬؞؞؞؞؞๑۩۞۩๑؞؞؞؞؞▬▬▬❂

 حافظ ابن صلاح پہلے آدمی ہیں جنہوں نے تواتر کی بحث کی طرف اپنے مقدمہ میں اشارہ کیا ہے۔ اس سے پہلے  کی کتابوں میں شائد تواتر کی بحث نہیں ملتی- ابن صلاح کے الفاظ ہیں” من الخبر المشہور الحدیث المتواتر “ یعنی ان کے ہاں متواتر حدیث خبر واحد کی قسم مشہور حدیث کی وہ خاص نوعیت سے تعلق رکھتی ہے، جو سامعین کو یقین کے اعلی ترین علم سے روشناس کرواتی ہے۔ پھر حافظ ابن صلاح نے من کذب والی روایت کو بطور مثال جو پیش کیا ہے وہ اپنی اساس میں تو خبر واحد ہے لیکن اپنی شہرت میں اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ شارحین مقدمہ ابن صلاح نے اسے متواترات کی بہترین  مثال قرار دیا ہے۔ المختصر کئی احادیث جو تواتر کی فنی تعریف پر پورا نہیں اترتیں لیکن ان کے طرق اتنے زیادہ ہیں کہ وہ نہایت مشہور ہو گئی ہیں اور ان سے حاصل ہونے والا علم عام صحیح روایات سے حاصل ہونے والے مفید علم کے اعلی ترین مقام تک پہنچ گیا۔

🖊️ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے یہاں تک دعویٰ کیا ہے کہ دین کے تمام بنیادی ترین مسائل (جیسے عقیدہ توحید، نماز، روزہ، حج، زکاۃ، اطاعت والدین، بدکاری، چوری اور ڈاکے وغیرہ کی حرمت وغیرہ) میں سے کوئی ایک مسئلہ ایسا نہیں جو دین میں متواتر درجہ کی خبر سے ثابت نہ ہو۔

 🌀... [ ایک مثال سے بات کو سمجھیے  ] 

کسی بلڈنگ کی جو بنیادیں ہوتی ہیں پکی بات ہے کہ انہیں زیادہ مضبوط ہونا چاہیے ، اس کے بعد اوپر جاتے جاتے کچھ کم اور اس کے مزید کچھ کم طاقت والی چیزیں بھی کام دے جائیں گی۔ اسی طرح امام ابن تیمیہ کہتے ہیں ❞دین کے جو بنیادی قواعد ہیں، دین کے جو أساسات ہیں (یعنی ضروریات دین/ کلیات دین)  ہر اساسی معاملہ دین میں درجہ تواتر سے ثابت ہے اور اس کے ثبوت میں معمولی درجے کا بھی شک نہیں ہے۔ ❝

   📌 [ اصولی بات] 

⚠️ امام ابن تیمیہ رح اور دیگر کبار آئمہ اہل سنت نے یہ اصول قرار دیا ہے کہ ” جو بندہ مسلمات دین اور ضروریات دین کا انکار کر دے وہ کافر ہے۔   “ اسی بنیاد پر محدثین کے ہاں اگلا اصول یہ ہے کہ : 

* جو بندہ متواتر حدیث کا انکار کرے وہ کافر ہے، کیونکہ ایسی روایات کے ثبوت میں معمولی درجہ کا بھی شک نہیں ہوتا۔

* لیکن جو شخص خبر واحد کا انکار کر دے تو چونکہ اس کے ثبوت میں تواتر جیسا اعلی یقین نہیں ہوتا، اسی لیے اس کے حکم میں کئی دفعہ اختلاف بھی ہو جاتا ہے، بعض اسے صحیح اور دوسرے بعض اسے ضعیف بھی کہہ سکتے ہیں، چنانچہ خبر واحد ک منکر کو اس بات کا فائدہ دیا جائے گا کیونکہ اس کے بارے میں محدثین کی دو رائے ہو سکتی ہیں - جیسے: ایک محدث اگر کسی حدیث کو صحیح کہہ رہا ہے تو دوسرا اسی حدیث کو ضعیف کہتا دکھائی دیتا ہے ایسا ممکن ہے، لیکن متواتر حدیث کہتے ہی اسے ہیں جس میں یہ اختلاف ممکن نہ ہو۔ جب کسی خبر کے ثبوت میں یہ امکان ختم ہو جائے تو وہ ما جاوز القنطرۃ کے مرحلہ میں داخل ہوجاتی ہے، جبکہ عام خبر واحد (صحیح دیث) کا بہرحال یہ مقام نہیں۔ (ہاں خبر واحد محتف بالقرآن کا معاملہ مختلف ہے، اس سے حاصل ہونے والے علم کا درجہ محدثین کرام کے ہاں وہی ہے جو متواتر حدیث کا ہے، اسی لیے ایسی روایت کو ہم تواتر حکمی کا نام دیں بے جا نہ ہوگا۔ اس نکتہ کی مزید تفصیل آئندہ آئے گی۔) 

 ✍🏻 اُصول: "متواتر وہ چیز ہوتی ہے جس کے بارے میں سب کا اتفاق ہوتا ہے" 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؞؞؞⤵️؞؞؞۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [حافظ عراقی رح کی بعض توضیحات] 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؞؞؞⤵️؞؞؞۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 حافظ عراقی رح جو  ابن حجر رح کے خاص الخاص استاد ہیں، امام ابن حجر نے 10 سال ان کی صحبت میں گزارے ہیں اور فن کی پختگی پیدا کی ۔  وہ مقدمہ ابن صلاح کی مشہور شرح  التقیید والایضاح میں حافظ ابن صلاح رح کی تواتر کے حوالے سے باتوں پر یہ تبصرہ حاشیہ میں کرتے ہیں کہ محدثین کے ہاں تواتر کی مشہور فنی تعریف (یعنی ما رواہ عدد کثیر تسحیل العادۃ تواطئهم على الكذب) کے حافظ ابن صلاح قائل نہیں ہیں، لیکن عراقی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امام ابن صلاح تصور تواتر کے قائل ہیں، انکاری نہیں- 

🌀... پھر انہوں نے التقیید والایضاح شرح مقدمہ ابن صلاح میں بعض مثالیں دی ہیں  :

* کہتے ہیں حافظ ابن صلاح کے ہاں تواتر ایسے سمجھیں جیسے مسح علی الخفین کی روایتیں متواتر ہیں، مسح علی الخفین کے بارے میں کافی ساری احادیث مروی ہیں اور ہر حدیث اگرچہ اپنی ذات کے اعتبار سے خبر واحد ہے لیکن وہ سب روایتیں اتنی کثرت سے ذخیرہ حدیث میں آئی ہیں کہ مسح علی الخفین کا مسئلہ دین کے اندر متواترات میں شامل ہوگیا ہے - 

* اسی طرح حافظ عراقی نے لکھا ہے کہ دعا کے اندر ہاتھ اٹھانے کا مسئلہ بھی متواترات میں سے ہے - 

 ✍🏻معلوم ہوا کہ جو آحاد روایتیں کثرت طرق سے کتب حدیث میں پائی جائیں وہ متواتر ہو سکتی ہیں اور یہ لازمی نہیں کہ وہ متواتر حدیث کہ فنی  تعریف پر اترتی ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؞؞؞⤵️؞؞؞۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [تواتر کے بارے میں دو  تصورات ] 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؞؞؞⤵️؞؞؞۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1.  تواتر کے بارے میں ایک عامیانہ تصور ہے جو کتب مصطلح میں تواتر کی تعریفوں کے تحت نظر آتا ہے۔

2.  اور تواتر کا ایک خاص تصور  وہ ہے جو  محققین آئمہ حدیث کا ہے۔

اس موضوع پر ڈاکٹر آصف ہارون جو جامعہ لاھور الاسلامیہ کے فاضل بھی ہیں اور پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی بھی کر چکے ہیں، ان کا مستقل مضمون ہے جو علمی مجلہ رشد قراءات نمبر 2 میں سنہ 2010 میں ہم نے شائع کیا تھا- 

🖊️ اس مضمون کا بنیادی عمود یہ تھا کہ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تواتر کا اصل تصور کیا ہے؟ اور بالخصوص ثبوت قرآن وقراءات میں کون سی قسم کا درجہ تواتر پایا جانا ضروری ہے، ورنہ وہ روایت صحیح ترین ہونے کے باوجود بطور قرآن ناقابل قبول ہی رہے گی۔ مضمون کا عنوان ہے: تواتر کا مفہوم اور ثبوت قراءات کا ضابطہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؞؞؞⤵️؞؞؞۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [حافظ ابن تیمیہ، حافظ ابن قیم، حافظ ابن حجر اور شارح بلوغ المرام امیر صنعانی رحمہم اللہ کا تواتر کے حوالے سے موقف ]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؞؞؞⤵️؞؞؞۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

 ابن تیمیہ، ابن قیم، ابن کثیر اور اسی طرح ابن حجر، حافظ نووی وغیرہ سب تواتر کی تقسیم کے قائل ہیں - ہمارے مطابق اس حوالے سے سب سے عمدہ بحث صاحب سبل السلام امیر صنعانی رح نے اصول حدیث پر اپنی مایہ ناز کتاب "توضیح الافکار" میں کی ہے۔  

 حافظ عبد ﷲ محدث روپڑی رح فرمایا کرتے تھے کہ

 ❞فن حدیث کی سب سے معتبر اور گہری ترین فکری کتاب توضیح الافکار ہے جس نے اصول حدیث میں یہ کتاب نہیں پڑھی، گویا اس نے اصول حدیث میں صرف مصطلحات کو رٹا مارا ہے مصطلحات کے تصورات اور concepts پر اس کی کوئی نظر نہیں۔ اس لیے آپ لوگوں کو توضیح الافکار ضرور پڑھنی چاہیے-

 ؞؞؞؞؞   امیر صنعانی رح نے اس کتاب میں یہ بحث کی ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے تواتر کو صرف عدد پر محصور کر دیا ہے وہ غافل لوگ ہیں - کہتے ہیں صرف عدد والے تواتر کی حالت تو یہ ہوتی ہے کہ کبھی چار افراد سے یہ (تواتر) حاصل ہوجاتا ہے اور کبھی چار سو سے بھی حاصل نہیں ہوتا، گویا ان کے نزدیک تواتر کے سلسلہ میں اصل چیز اس کا صیغہ نہیں، بلکہ وہ نتیجہ ویقینی علم ہے، جس تک متواتر روایت انسان کو جا پہنچاتی ہے  ؞؞؞؞؞

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؞؞؞⤵️؞؞؞۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [تواتر کا صحیح تصور] 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؞؞؞⤵️؞؞؞۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تواتر اس تصور کا نام ہے:

1.  جو یقین کے اعلی درجے کی چیز ہوتی ہے۔

2.  جس کے بارے میں عوام وخواص کسی کی بھی دو رائے نہ ہوں، خبر روایت کے سلسلہ میں سب صرف ایک بات ہی کو بیان کریں۔ 

3.  تواتر سے مراد ثبوت کا وہ معیاری ترین انداز ہے جس کے بارے میں ظن کا امکان سرے سے ختم ہو جائے۔ 

اب اگر آپ کہتے ہیں کہ خبر واحد ہی مفید للیقین ہے یا مفید للعلم ہے تو یہ سادی سی بات سمجھنے کی ضرورت ہے  کہ  علم کے بھی تو آگے درجات ہوتے ہیں - اگر ایک بات 50 لوگوں نے بیان کی ہے اور ایک بات صرف 1 بندے نے بیان کی ہے تو بہرحال 50 بندوں کی بیان کردہ بات کے اوپر سامع کا زیادہ یقین پیدا ہو گا، ایسی خبر روایت کا معیار لازمی بات ہے کہ زیادہ اونچا ہوگا۔

 ✍🏻 اصول: "قرآن پاک کا ثبوت  عام درجے کی  خبر واحد (صحیح روایت) سے نہیں ہوتا۔ "  یہ بالکل کنفرم بات ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؞؞؞⤵️؞؞؞۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [ بخاری و مسلم کی روایات کی حیثیت] 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؞؞؞⤵️؞؞؞۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسی طرح صحیح بخاری و مسلم کی احادیث خبر مقبول کے عام معیارِ صحت سے زائد اور بر تر معیار پر ثابت ہیں۔ کیونکہ امام بخاری و مسلم نے اپنی اپنی صحیح میں صحت حدیث کے عام معیار سے بڑھ کر  کچھ ایسی خصوصی اضافی شرائط شامل کی ہیں جن کی وجہ سے صحیح بخاری و مسلم کا مقام صحت وقبولیت میں اتنا اونچا ہے کہ ان دونوں کتب کی قبولیت پر سب کا  اتفاق ہو گیا ہے- 

 ؞؞؞♕︎     مثلا امام مسلم رح مقدمہ صحیح مسلم میں لکھتے ہیں کہ میں نے اس کتاب میں صرف وہ احادیث نقل نہیں کیں جو محدثین کے اصول پر / میرے نزدیک صحیح تھیں بلکہ میں نے اس کتاب میں وہ احادیث نقل کی ہیں [ مَا أجمَعُوا علیه] جن کی صحت پر سب محدثین کا اتفاق تھا- امام مسلم کی یہ اضافی شرط ٹھیک ایسے سمجھیں، جیسے قاریوں کے ہاں صرف صحیح روایت سے قرآن تب تک ثابت نہ ہوگا، جب تک وہ تمام ماہرین فن کے ہاں تلقی بالقبول (اتفاق عام) کا مقام حاصل نہ کرلے۔ اسی طرح مزید یہ شرط بھی ہے کہ اس مجمع علیہ صحیح روایت کو مصاحف عثمانیہ کی موافقت بھی حاصل ہو اور اسی طرح لغات عرب کی تائید بھی حاصل ہو - 

الغرض صحیح مسلم کی احادیث قرآن پاک کے ثبوت کے اعلی معیار کے قریب ترین معیار پر ثابت ہیں۔ اسی طرح صحیح بخاری کا معاملہ ہے، اس کی تالیف و تصنیف کے بعد اسی زمانہ میں بھی اور بعد کے ادوار میں بھی ہر ماہر فن نے اسے فنی معیار پر پرکھا اور سب بالاتفاق اس کی صحت کے قائل ہوئے۔ 

📌 عام صحیح روایات اور صحیح بخاری وصحیح مسلم کی صحیح روایات کے ثبوت میں معیار کے فرق کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ احناف کے ہاں عام صحیح روایت صرف مفید للظن ہوتی ہے، لیکن حنفیوں کے خاتمۃ المحققین علامہ انور شاہ کشمیری اور ان سے پہلے علامہ سرخسی تک نے مانا ہے  کہ صحیحین کی روایات ویسے قطعی ثبوت کا فائدہ دیتی ہیں جیسے قرآن پاک کی آیات اور اس کی متعدد قراءات کا ثبوت قطعی ہے۔

 اس کا مطلب یہ ہوا کہ انہوں نے مانا ہے کہ عام صحیح حدیث اور صحیح بخاری وصحیح مسلم والی صحیح حدیث کے معیار ثبوت میں بہت فرق ہے۔ ان کے ہاں صحیح بخاری وصحیح مسلم کی حدیثیں قرآن کریم کے برابر درجہ کے ثبوت کے معیار پر پورا اترتی ہیں - 

 ❂▬▬▬๑؞؞؞؞؞۩۞۩๑؞؞؞؞؞▬▬▬❂

      |||[ فضیلۃ الشیخ مولانا ثناء ﷲ زاہدی حفظہ اللہ کے موقف پر بات ]||| 

❂▬▬▬๑؞؞؞؞؞۩۞۩๑؞؞؞؞؞▬▬▬❂

[ = ]    فضیلۃ الشیخ حافظ ثناء ﷲ زاہدی حفظہ اللہ جماعت اہل حدیث کے سینئر علماء میں سے ہیں اور بلاشبہ انہوں نے خدمت حدیث کے لیے گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں- اصول فقہ حنفی (جن کا صحیح نام اصول تقلید ہے) کے حوالے سے گزشتہ کئی سالوں سے جو کام کر رہے ہیں اس کے پیچھے  ان کا جذبہ عمدہ ہے کہ صحیح حدیث کا خبر واحد کے نام پر قطعا استخفاف نہیں ہونا چاہیے۔ اس سلسلہ میں جس زور سے تحریکی انداز میں وہ کام کر رہے ہیں، اس کا ایک کمزور پہلو یہ بھی ہے کہ انہوں نے جب معتزلہ ومقلدین حنفیہ کے ہاں صحیح حدیث کے سلسلہ میں خبر واحد کے عنوان سے استخفاف کا مشاھدہ کیا تو اس مذموم کھیل کو رد کرتے ہوئے خبر واحد اور خبر  متواتر کی تقسیم پر اعتراض پیش کردیا۔ اس معاملہ میں ہمارا تبصرہ یہ ہے کہ  ان کا جذبہ مبارک  سہی، لیکن وہ معتزلہ و مقلدین حنفیہ  کے غلط طرز عمل کے رد عمل میں فن حدیث کی مسلمہ مصطلحات کا انکار فرما رہے ہیں، جو ہمیں بعض پہلوؤں سے انتہائی خطرناک نتائج کی طرف لے جاتا ہے۔ ٹھیک ہے کہ اہل بدعت نے اصطلاحات تواتر وآحاد کے حوالے سے غلط انداز اختیار کیا ہے کہ جب بھی کوئی حدیث ان کے سامنے آتی ہے تو وہ سب سے پہلے یہ بحث چھوڑ دیتے ہیں کہ یہ حدیث متواتر ہے یا خبر واحد؟ گویا ان کے ہاں خبر کی قبولیت ورد کی اصل بنیاد ہی آحاد و تواتر کی تقسیم ہے! لیکن ہم عرض کریں گے کہ اہل بدعت کے غلط طرز عمل سے قطع نظر خود فن محدثین میں بھی تو اس مسلمہ بنیادی تقسیم کے کچھ اہم مقاصد ہیں۔ چنانچہ ہمارا پر زور تقاضا ہے کہ ہم غلط کاروں کے طرز عمل کے رد عمل میں اپنے درست تصورات اور بنیادی مصطلحات میں خود ہی تشکیک کا انداز اختیار نہ کریں، کیونکہ منکرین حدیث (غامدی گروپ وغیرہ) تو بڑے عرصہ سے فن حدیث میں تشکیک کا دروازہ کھول کر بیٹھیں ہیں  اور انہوں نے فن کی کئی مصطلحات سے کھلواڑ شروع کر رکھا ہے۔ انہوں نے مصطلحات: سنت وحدیث کے نئے مفاہیم، روایت و درایت کے خود ساختہ تصورات اور ظن ویقین کے فلسفیانہ مفاہیم کے تحت ان فنی اصطلاحات میں محدثین کرام کے اصل تصورات کا انکار کر رہے ہیں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؞؞؞⤵️؞؞؞۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [ محدثین کرام کا کسی خبر (حدیث) کو پرکھنے کا انداز] 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؞؞؞⤵️؞؞؞۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 جب کبھی محدثین کے پاس کوئی حدیث آگئی اور وہ 5 بنیادی شرائط سے ثابت بھی ہو تو محدثین اس پر پورا اعتماد کرتے ہیں- ہاں! اگر وہ راویت  اس سے زیادہ صحیح روایت سے ٹکرا جائے تو پھر یہ بحث محدثین کے ہاں ہے کہ کون سی روایت "اصح" ہے اور کون سی صرف "صحیح"،  اور وہ "اصح" کو لے لیتے ہیں، اس کے متعارض صرف "صحیح" کو چھوڑ دیتے ہیں-

📌 اگر کسی دینی معاملہ میں قرآن کی متواتر نص آجائے اور دوسری طرف کسی دوسرے دینی معاملہ میں ثابت شدہ خبر واحد کا حکم موجود ہو تو محدثین کرام کے ہاں قبول اور عمل کے اعتبار سے دونوں کا مقام ومرتبہ ایک ہی ہے اور وہ دونوں کے ثبوت کے باہمی فرق کے باوجود قبول وعمل میں کوئی تفریق نہیں کرتے۔ اس کی ایک مثال آپ دیکھیں کہ اہل الحدیث والاثر کے ہاں قرآن کی عام نص کی تخصیص ثابت شدہ خبر واحد سے کرنے میں ان کا کوئی اختلاف نہیں۔ ہاں اگر ایک ہی دینی مسئلہ میں ثبوت میں اقوی روایت قوی روایت سے ٹکرا جائے اور دونوں میں تطبیق ممکن نہ ہو تو پھر محدثین کرام اقوی کو قوی پر ترجیح دیتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؞؞؞⤵️؞؞؞۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[ تواتر کے انکار کی بحث کا آغاز]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؞؞؞⤵️؞؞؞۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تواتر کے انکار کی بحث جس شخصیت سے چلی ہے، وہ مدینہ یونیورسٹی کے استاد، ایک عالم ہیں، جں  کا نام الشیخ حاتم شریف العونی ہے، انہوں نے کچھ سال پہلے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے: [المنھج المقترح فی علم المصطلح]، اسی طرح کچھ نئے تصورات پیش کرنے والے افراد میں ایک دوسرا نام دکتور حمزہ ملیباری  وغیرہ کا ہے، ان لوگوں فن حدیث کئی مسلمہ مصطلحات میں نیا انداز اختیار کرلیا ہے۔ ان لوگوں کے تالیفی کام کا مرکزی انداز یہ ہے کہ یہ لوگ متقدمین و متاخرین اہل الحدیث والاثر کے درمیان ایک  تنازع باور کروایا جاتا ہے۔ شیخ حاتم شریف العونی نے اپنی مذکورہ کتاب میں تقسیم الخبر المتواتر والآحاد کا انکار کردیا ہے۔ ان سے متاثر بعض اہل علم اب بر صغیر پاک وہند میں یہی تحریک آگے بڑھا رہے ہیں۔ 

...📖...ان لوگوں کا انداز یہ ہے کہ متقدمین، جن کے زمانہ تک ابھی فن حدیث اور اس کی پیشتر اصطلاحات مدون نہیں ہوئی تھیں، تب تک  کے علماء کے احادیث پر حکم صحیح ہیں اور بعد والے تو محض اہل ظاھر ہیں، وہ حدیث پر حکم لگانے میں علل خفیہ کو جانتے ہی نہیں ہیں۔ متقدمین و متاخرین کے منہج تحقیق میں موازنہ کے حوالے سے جو لوگ  کام کر رہے ہیں، ان کے بارے میں رسوخ علم رکھنے والے اہل علم جانتے ہیں  کہ یہ تحریک کتنی نقصاندہ اور خطرناک ہے۔

📌 اصطلاحات محدثین کے بارے میں جب بھی اس قسم کا نیا دروازہ کھولا گیا ہے،  اہل الحدیث کے کبار اہل علم نے  اسے کبھی قبول نہیں کیا۔ مثلا

۔ شیخ زبیر علی زئی رح نے مسلمہ اصول حسن لغیرہ کے حوالے سے انکار کر دیا۔

۔ دکتور ہاشم شریف نے خبر متواتر واحاد کی تقسیم کا انکار کردیا۔ اسی تدلیس کے حوالے سے بعض نئے نظریات پیش کیے ہیں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؞؞؞⤵️؞؞؞۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [ ہمارا اور اہل الحدیث والاثر کا نمائندہ موقف] 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؞؞؞⤵️؞؞؞۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم کہتے ہیں کہ خیر القرون میں پہلے تصورات تھے، اس وقت اصطلاحات سازی کے مرحلہ سے فنون نہیں گزرے تھے، لیکن اصطلاح جب مدون ہو گئیں تو پھر اس کے بعد ہی اصطلاحات کی بحث چلے گی۔ مثلا فن تجوید تین سو سال  تک مدون نہیں ہوا تھا، عربی گرامر کی تدوین کا آغاز ابو الأسود الدؤلی نے کیا ہے اور امام سیوطی نے اس حوالے سے ایک کتاب بھی لکھی ہے: [ الاخبار المرویة في سبب وضع علم العربیة] یہ کتاب اس موضوع پر ہے کہ علم لغت کیسے مدون ہوا؟! (یاد رہے کہ ابو الاسود الدؤلی تابعی ہیں-) معلوم ہوا کہ تدوین اصطلاحات سے پہلے تصورات موجود ہوتے ہیں، لیکن مصطلحات تدوین کے دران وجود میں آتی ہیں، چنانچہ دور تدوین سے پہلے اصطلاحات کے الفاظ کو تلاش کرنا قطعا غلط انداز ہے۔ ہاں اسلاف میں تصورات موجود ہوتے ہیں البتہ مصطلحات متاخرین کے ہاں وجود میں آتی ہیں۔

  امام ترمذی رح نے اپنی سنن میں مصطلح حسن کو پہلے پہلے استعمال کرنا شروع کیا تھا، اسی طرح امام بغوی رح نے مصطلح "حسان" تھوڑی تھوڑی استعمال کرنا شروع کر دی۔ اب کوئی اس بنیاد پر حسن لغیرہ کا انکار کرنا شروع کردے کہ متقدمین اہل الحدیث (مثلا کتب حدیث کے مؤلفین کے ہاں) فلاں فلاں اصطلاح کا استعمال نہیں ملتا،  اس لیے فلاں فلاں مصطلح کو ہم نہیں مانتے، چاہے متاخرین نے اسے بالاتفاق قبول کیوں نہ کیا ہو، بہرحال یہ انداز سمجھداری والا نہیں ہے۔ اسی طرح تواتر کی اصطلاح کو حدیث کی مشہور کتب کے اصحاب تالیف ہاں تلاش نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ اس دور میں یہ مصطلحات مرحلہ تدوین ہی سے نہیں گزریں تھیں تو متقدمین کے ہاں کس طرح ان مصطلحات کا لفظی استعمال مل سکتا ہے؟! ہاں دور تدوین کے بعد آپ ضرور مصطلحات کو دیکھیں تو آپ کا ان کا بڑا وسیع استعمال ملے گا۔ مثلا متواتر حدیثوں کے جمع کرنے کے لیے کئی لوگوں نے باقاعدہ کتب لکھی ہیں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؞؞؞⤵️؞؞؞۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [شیخ ثنا ء اللہ زاھدی حفظہ اللہ کا اپنی نئی کتاب میں پیش کردہ 450 حوالوں پر تبصرہ ]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؞؞؞⤵️؞؞؞۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انہوں نے جامعہ لاھور الاسلامیہ (رحمانیہ) میں اپنی تقریر کے دوران خبر متواتر وخبر آحاد کی تقسیم کے رد کے سلسلہ میں الرسالہ للشافعی  کا حوالہ دیا ہے۔ حالانکہ الرسالہ جس دور میں لکھا گیا اس دور میں یہ مصطلحات موجود ہی نہ تھیں۔ اسی لیے غامدی نے اپنی من گھڑت تواتر عملی کی دلیل کے لیے پورا موقف الرسالہ میں موجود خبر عامہ وخبر خاصہ  سے اٹھایا ہوا ہے اور ہماری اس سے دس بارہ سال قبل آمنے سامنے کئی روز یہ بحث جاری رہی کہ آپ اپنےمنگھڑت تصورات کے لیے الرسالہ کا غلط حوالہ نہ دیں، اسی طرح ہم گزارش کریں گے کہ کیونکہ الرسالہ اس دور کی کتاب ہے جب اصول حدیث کی اصطلاحات ابھی طے ہی نہیں ہوئیں تھیں، تو اس کی بنیاد پر تقسیم متواتر وآحاد کا انکار کس طرح مناسب ہوسکتا ہے۔ الرسالہ میں تو مصطلح تواتر کو امام شافعی رح نے پیش ہی نہیں کیا، تو کس طرح اس تقسم کے انکار کے لیے الرسالہ کا نام پیش کیا جاسکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؞؞؞⤵️؞؞؞۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [  امام شافعی رح کے ہاں خبر العامہ سے ان کی مراد ] 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؞؞؞⤵️؞؞؞۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

📌 ان کے ہاں خبر دو طرح کی ہے :

 (1) خبر خاصہ 

 (2) خبر عامہ

﴿...۞   ان کے ہاں خبر العامہ ایسی خبر ہوتی ے جو خبر واحد سے ثابت ہو لیکن” اس کو نقل کرنے والے ہر طبقے میں کافی سارے افراد ہوں۔ “

﴿...۞  خبر  خاصہ سے ان کی مراد وہ روایت ہے”  جسے صرف چند مخصوص افراد بیان کریں“ خبر واحد اور خبر متواتر الرسالہ میں امام شافعی رح کی اصطلاحات ہی نہیں ہیں - 

اب سمجھنے کی بات یہ ہے کہ امام شافعی سے لے کر اب تک 1200 سال بنتے ہیں اور امام شافعی سے آج کے دور کے سب مؤلفین اصول حدیث میں سے کسی ایک کے ہاں اس مسلمہ تقسیم کے رد کی تائید پیش نہیں کی جاسکتی

یاد رکھیں کہ ! 

🚫 اصطلاحات کے بارے میں اگر تشکیک کا دروازہ کھل گیا تو سمجھ لیں کہ آپ کا پورا فن حدیث ہی اڑ گیا۔ 

محترم شیخ ثناء اللہ زاہدی صاحب حفظہ اللہ کہتے ہیں امام نووی اور امام ابن حجر وغیرہ چونکہ سب متکلم ہیں، اس لیے ان کی اصول حدیث کی کتب میں خبر واحد اور خبر متواتر کی تقسیم کا ذکر قابل قبول نہیں۔

*  اب سوال یہ ہے کہ علم اصول فقہ میں بھی اکثر مؤلفین اشعری، ماتریدی یا معتزلہ ہیں تو کیا اس فن کی سب اہم کتب کو چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ سب متکلم ہیں؟! 

 ہمارے مطابق محدثین کا انداز یہ نہیں ہے- چنانچہ سعودی عرب کے معروف عالم الشیخ سلیمان الرحیلی حفظہ اللہ نے اس موضوع پر دو گھنٹے کا لیکچر مسجد نبوی میں اپنے حلقہ دورس میں دیا تھا کہ ہماری حدیث کی کتابوں کی شرح لکھنے والے تقریبا تمام شارحین متکلمین  ہیں تو کیا اب اس وجہ سے ہم ان تمام شروحات حدیث سے استفادہ ترک کردیں؟! 

[متن عقیدہ طحاویہ کی مثال] 

جیسے شرح عقیدہ طحاویہ لابی العز الحنفی کہنے کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رح اور علامہ ابن قیم رح کے 80 فیصد عبارات سے اخذ شدہ ہے، لیکن اس کے باوجود بعض جگہ ایسے تصورات پیش کیے گئے ہیں جن کا اہل سنت سے نمائندہ نظریات سے نہیں۔ مثلا اس میں ایمان کے مسئلے میں جو موقف پیش کیا گیا ہے وہ اہل سنت کا نمائندہ موقف نہیں ہے، سعودی عرب کے بعض معتبر علماء نے شرح طحاویہ پر بعض ایسی جگہ حواشی بھی لگائے ہیں کہ یہاں پیش کردہ موقف ہمارا موقف نہیں ہے۔


Third and last part will be shared soon In sha Allah 


عن الكاتب

Peace Center

التعليقات


call us

اگر آپ کو ہمارے بلاگ کا مواد پسند ہے تو ہم رابطے میں رہنے کی امید کرتے ہیں، بلاگ کے ایکسپریس میل کو سبسکرائب کرنے کے لیے اپنی ای میل درج کریں تاکہ پہلے بلاگ کی نئی پوسٹس موصول ہو سکیں، اور آپ اگلے بٹن پر کلک کر کے پیغام بھیج سکتے ہیں...

تمام حقوق محفوظ ہیں۔

Peace Center