In 100 years, where will we be? | A tear-jerking article
Peace Center Peace Center
recent

ہیڈ لائنز

recent
random
جاري التحميل ...

In 100 years, where will we be? | A tear-jerking article

 

احتساب عظیم سے پہلےاپنا محاسبہ کیجیئے!

    اس فانی دنیا سے ہم  سب نے ایک دن کوچ کرنا ہے۔ 100 سال بعد، ہمارے نام و نشان بھی باقی نہیں رہیں گے، اور ہماری یادیں بھی مٹی میں دفن ہو جائیں گی۔ ہم جس دنیاوی مال و دولت کے پیچھے بھاگتے ہیں، وہ سب کسی اور کی ملکیت ہو گی۔ جس گھر، دفتر یا دکان میں ہم بیٹھے ہیں، یہ بھی 100 سال بعد کسی اور کے ہوں گے۔ ان میں سے کچھ بھی ہمارے پاس نہیں ہوگا۔ ہماری چیزیں، ہماری باتیں، کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔


 كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ  وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ" (سورۃ الانبیاء  (35 :

’’ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے، اور ہم تمہیں آزمائش کے طور پر خیر اور شر سے جانچتے ہیں، اور تم ہماری طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘

2024 کا یہ لمحہ جب 100 سال بعد 2124 میں دوبارہ آئے گا تو نہ میں ہوں گا، نہ آپ ہوں گے اور نہ ہی یہ زمانہ ہوگا۔ ہم سب اپنے رشتہ داروں اور اپنے دوستوں کے ساتھ دفن ہو چکے ہوں گے، کسی قبرستان کے گنجان حصے میں زندگی کی ہر سانس کا حساب دے رہے ہوں گے۔ تب ہماری قبر بھی گمنام ہو چکی ہوگی۔وہ گھر جنہیں بنانے کے لیے ہم نے اپنا خون پسینہ ایک کیا، وہاں اجنبی لوگوں کا بسیرا ہوگا۔ ہم یہ جن چیزوں کے پیچھے، جنہیں حاصل کرنے کے لیے پاگلوں کی طرح بھاگ دوڑ کر رہے ہیں، وہ سب کی سب چیزیں کسی اور کی ملکیت ہوں گی۔ ہم ختم ہو چکے ہوں گے۔ ہمارا غرور، ہماری جوانی، ہمارا پیسہ، ہماری دولت، ہماری عزت، سب کچھ مٹی کے نیچے ہوگا۔ہماری آنے والی نسلیں ہمیں بس اتنا ہی ڈسکس کریں گی جتنا آپ اور میں ہم سب اپنے دادا اور پردادا کو ڈسکس کرتے ہیں۔ میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ کیا آپ کو یاد ہے کہ آپ نے آخری بار اپنے آبا و اجداد کو کب یاد کیا تھا؟ بس اتنی سی کہانی ہے، اتنی سی زندگانی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سب جانتے ہیں کہ ہم نے یہاں سے کوچ کر جانا ہے اور ساتھ کچھ بھی نہیں لے کر جانا، لیکن پھر بھی ہمارے لالچ کا پیالہ ہے کہ بھرتا ہی نہیں۔

اس دنیا کے گنڈے اور بدماش سب کچھ چھین لینے کی ہوس میں سب کچھ چھین لینے کی کوشش میں اپنی ساری حدیں پھلانگ جاتے ہیں۔ جہاں اس دنیا میں وسائل پر قبضے کی جنگ میں خون کے دریا بہائے گئے، انسانی کھوپڑی کے مینار تعمیر کیے گئے، وہاں آج بھی ظلم اور بربریت کا سلسلہ اسی شدت کے ساتھ جاری ہے۔

اللہ تعالی  کا فرمان  ہے؛"كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۖ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۗ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ" (آل عمران:  (185’’ ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے، اور تمہیں قیامت کے دن پورے بدلے دیے جائیں گے۔ پھر جو شخص آگ سے دور کر دیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا وہ کامیاب ہو گیا، اور دنیا کی زندگی دھوکے کے سامان کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘

آج فلسطین میں انسانیت تڑپ رہی ہے۔ فلسطینی فضائیں اسرائیلی حملوں اور انسانی چیخوں سے گونج رہی ہیں۔ غزہ میں بھوک اور افلاس کا راج ہے۔ خوراک ناپید ہے، پانی بند ہے، لاشوں کو دفنانے کے لیے جگہ ختم ہو چکی ہے۔ ہر طرف لاشیں ہیں۔ فلسطینیوں کو تل کی چند بوندوں سے بھی سستا سمجھنے والوں کو کیا اپنی موت یاد نہیں؟

کیا اسرائیلی حکومت میں بیٹھے ہوئے جلاد اپنی جانوں کے خود مالک ہیں؟ کیا یہ اتنے طاقتور ہیں کہ اپنی موت کو روک سکتے ہیں؟ یقین جانیے 100 سال بعد قتل عام کے لائسنس جاری کرنے والے ان بدماشوں کا نام و نشان تک باقی نہیں رہے گا۔

آج فلسطین میں المیہ جنم لے چکا ہے اور تاریخ اپنے دامن میں ظلم کی نئی داستانیں رقم کیے ہوئے کھڑی تماشا دیکھ رہی ہے۔ لیکن افسوس، اسلامی ممالک کے بےتاج بادشاہ اپنی تخت و تاج بچانے کے لیے خاموش تماشائی بنے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن یہ تخت و تاج آخر کب تک رہیں گے؟ یہ تخت و تاج کب کسی کے رہے ہیں جو ان کے پاس باقی رہیں گے؟

سیدنا ابو ہریرہ tروایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی فرماتا ہے:

"يقول ابن آدم: مالي مالي. وهل لك من مالك إلا ما أكلت فأفنيت، أو لبست فأبليت، أو تصدقت فأمضيت؟"

’’ابن آدم کہتا ہے: میرا مال، میرا مال! حالانکہ اس کا مال تو صرف تین چیزیں ہیں: جو کھا لیا وہ فنا ہو گیا، جو پہن لیا وہ پرانا ہو گیا، یا جو صدقہ کر دیا وہ باقی رہ گیا۔‘‘   ]صحیح بخاری :  6416[

پاکستان کے غریب بھی ظلم کی اسی چکی میں پس رہے ہیں۔ برسرِ اقتدار حکومت طاقت اور پاور کے نشے میں چور ہر طرح کے ظلم اور زیادتی کو اپنا حق سمجھ رہی ہے۔ یہ جو چلتی پھرتی لاشوں کے ڈر سے محافظوں کی فوج کو اپنے ساتھ لے کر گھومتے ہیں، یہ زمین پر خدا بنے ہوئے پھر رہے ہیں۔کیا یہ سب لوگ اپنی موت کو روک سکیں گے؟ 100 سال بعد ان بادشاہوں کے تاج کسی اور کے سر ہوں گے۔ یہ لوگ زمین کے نیچے، زمین کے اوپر کیے گئے مظالم کا حساب دے رہے ہوں گے۔ یہ جو خدمت کے نام پر دولت کے انبار جمع کر رہے ہیں، رشوت کے بازار گرم کیے ہوئے ہیں، بیواؤں، یتیم بچوں، بزرگوں اور پریشان حال افراد کا خون چوس چوس کر اپنی سونے کی تجوریاں بھر رہے ہیں، کیا یہ پیسوں سے اپنی موت کو روک سکیں گے؟آج ہر طرف ظلم کا بازار گرم ہے۔ پورا معاشرہ ظلم اور زیادتی کی آگ میں جل رہا ہے۔

اس مختصر سی زندگی میں ہم نفرتوں کی فصل بوئیں گے تو نفرتوں کی فصل کاٹیں گے۔ محبتوں کے بیج بوئیں گے تو محبتوں کے پھل کھائیں گے۔آخر میں، زندگی کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے ہمیں اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا چاہیے۔ اور اس قید خانے میں اللہ کے ہاں سر تسلیم خم کرتے ہوئے زناگی بسر کر جائیں۔

سیدناعبد اللہ بن عمر t سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: "الدنيا سجن المؤمن وجنة الكافر." ’’ دنیا مومن کا قید خانہ ہے اور کافر کے لیے جنت ہے۔ ‘‘(صحیح مسلم : 2956)

ہمارے اعمال ہی ہمارے آخرت کے سفر کا سرمایہ ہیں۔اپنوں سے محبت کا اظہار کرتے رہا کریں، رشتوں میں تازگی بڑھاتے رہا کریں کیونکہ ہم سب نے ایک دن بچھڑ جانا ہے، اس دنیا کو چھوڑ کر چلے جانا ہے۔

عن الكاتب

Peace Center

التعليقات


call us

اگر آپ کو ہمارے بلاگ کا مواد پسند ہے تو ہم رابطے میں رہنے کی امید کرتے ہیں، بلاگ کے ایکسپریس میل کو سبسکرائب کرنے کے لیے اپنی ای میل درج کریں تاکہ پہلے بلاگ کی نئی پوسٹس موصول ہو سکیں، اور آپ اگلے بٹن پر کلک کر کے پیغام بھیج سکتے ہیں...

تمام حقوق محفوظ ہیں۔

Peace Center