Lec-01 Tafheem e Eman Wa Aqeedah Course
Peace Center Peace Center
recent

ہیڈ لائنز

recent
random
جاري التحميل ...

Lec-01 Tafheem e Eman Wa Aqeedah Course

 

الحکمہ انٹرنیشنل شعبہ ایجوکیشن کے زیر اہتمام

شارٹ درس نظامی کورس

¦معلم و مربی¦

قاری شفیق الرحمٰن زاہد حفظہ اللہ تعالیٰ

🖌️لیکچر نمبر :01

یریڈ :02

  الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ[سورۃ البقرۃ:03]

 ¦¦~ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي أَنزَلَ مِن قَبْلُ ۚ وَمَن يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا [سورۃ النساء:136]


 ¦¦~ عَنْ جُنْدُبِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ فِتْيَانٌ حَزَاوِرَةٌ، «فَتَعَلَّمْنَا الْإِيمَانَ قَبْلَ أَنْ نَتَعَلَّمَ الْقُرْآنَ، ثُمَّ تَعَلَّمْنَا الْقُرْآنَ فَازْدَدْنَا بِهِ إِيمَانًا»[سنن ابن ماجه :61]

    "حضرت جندب بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہمیں نبی ﷺ کا ساتھ نصیب ہوا جب کہ ہم بھر پور جوان تھے، تو ہم نے قرآن کا علم حاصل کرنے سے پہلے ایمان سیکھا ،پھر ہم نے قرآن سیکھا تو اس سے ہمارے ایمان میں اضافہ ہوگیا۔"


 !!!! اہم بات !!!!

" ایمان میں ذرا سی بھی غلطی انسان کا سٹیشن بدلدیتی ہے - ایمان کی مثال ایسے ہے کہ بندہ گراؤنڈ کے اندر رہ کر کھیلے اور بغیر کسی فاؤل کے اپنے گول کو پا لے - ایمان میں ٹریک سے ہلکا سا بھی ادھر ادھر ہوگئے تو یاد رکھیں سٹیشن بدل سکتا ہے - ایک سٹیشن جنت ہے اور دوسرا جہنم ہے آپ پر ہے کہ آپ کتنی مہارت سے گاڑی چلاتے ہیں، راستہ چاہے کتنا ہی خطرناک ہو کیپٹن ماہر ہو اور گاڑی اچھی ہو تو بندہ منزل تک پہنچ ہی جاتا ہے۔"

📖بنیادی نکات :

کسی بھی کتاب میں چار چیزیں بنیادی ہیں :

1. کتاب

2.الفاظ

3.علم

4. مقصد یا مدعا

ایمان کے بنیادی ارکان

1. ایمان باللہ

2. ایمان بالرسل

3. ایمان بالآخرۃ

4. ایمان بالملئکة

5. ایمان بالکتب

 اسلام کے بنیادی عقائد

1. التوحید (تین اقسام
:ربوبیت، الوہیت، اسماء و صفات)

2. رسالت

3. آخرت

 یورپ کے بنیادی عقائد:

نوجوان نسل کے لیے ان کو پہچاننا انتہائ ضروری ہے وگرنہ گمراہی اور فتنوں کے گھڑے ہر طرف منہ  کھولے کھڑے ہیں

 (1)آزادی اور آزادی سے مراد :

"ہر بندہ اپنی مرضی کا مالک ہے یعنی میں اپنے جسم کا خالق، مالک اور حاکم خود ہی ہوں، صرف اپنا ہی حکم
مانوں گا" -

=)انسان کو دین کی پابندیوں سے آزاد کرنا -

=)انسان کو فطرت کی پابندیوں سے آزاد کرنا بسا اوقات بندے کی فطرتی حیا اور نیکی اسے برائ سے روک دیتی ہے -

=)والدین کی پابندیوں سے آزاد کر نا -

=)اعلی اخلاقی روایات و
اقدار کی پابندیوں سے آزاد کرنا معاشرت (معاشرے) کی پابندیوں سے آزاد کرنا -


 (2)مساوات اور مساوات سے مراد :

یہ کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ ہر بندہ اپنے آپ میں خدا ہے اور برابر کا خدا ہے کسی پر کسی دوسرے کی خدائی نہیں چلے گی -

 (3)ترقی /پروگریس اور اس سے مراد:

زندگی کے کسی لمحے میں خوش نہیں رہنا اور شکر پر نہیں آنا - یہ کہتے ہیں کماؤ کمانے اور بڑھانے کے لیے اور ہمارا اسلام  کہتا ہے کماؤخرچ کرنے کے لیے - یاد رکھیں! انفاق سے الف نکال دیں تو صرف نفاق رہ جاتا ہے، یہ بات آج کے والدین کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام  نفاق کے لیے نہیں انفاق کے لیے کمایا جاتا ہے -

 طالب علم کے لیے یاد رکھنے کی  نہایت اہم آیت :

قرآن مجید میںارشاد ہے: اِنَّ فِی ذَلِكَ لِمَن کَانَ لَهُ قَلبٌ أَوْ اَلقَی السَّمعَ وَھُوَ شَھِید

علم میں فہم اور بصیرت چاہتے ہیں تو اس کے لیے تین چیزیں نہایت اہم ہیں :

 (1). دل کا حاضر ہونا :علم کی مجلس میں طالب علم کا دل پوری طرح حاضر ہونا چاہیے ایسا نہ ہو کہ خیالات کہیں اور ہیں اور آپ خود کہیں اور ہیں -

 (2)کانوں کا حاضر ہونا : کان پوری طرح استاد کی بات کی طرف متوجہ ہوں -

 (3) جسم کا حاضر ہونا: طالب علم کا جسم خود علم کی مجلس میں موجود ہو -

اسلام کہتا ہے تدبر و تفکر سے کام لو اور یورپ کہتا ہے یہ کام ہم سے نہیں ہوتا انہوں نے بنیادی چیزیں پکڑی ہیں :

 (1) آج کے انسان  کی آنکھوں کو بے حیائی دے دی -

 (2) دماغ کو پراگندہ خیالات دے دیے -

 (3) دل کو بری اور چھوٹی خواہشات کی طرف لگا دیا

"اس کی وجہ سے بندہ تدبر  وتفکر کو چھوڑ کر جانور کی مانند زندگی گزارنے لگ گیا ہے "

اسلام ایسا ایمان دیتا ہےجو بندے کے دل ودماغ کو ہشاش بشاش کردیتا ہے اور بندے کی آنکھوں میں پاکیزگی آجاتیہے مومن پاکیزگی اور حیا میں  یوسف ؑ کےکردار کو اپنا لیتا ہے -

 !!!=!!! خلاصہ :

یاد رکھیں! ہمارے ہاں عقیدے کی نظریاتی اور فکری بحثیںتو بہت چلتی ہیں لیکن ایمان کم ہوتا ہے اصل اصول الایمان ہے یعنی بندہ عقیدہ آخرت کی بات کرے تو اس کے اندر ایک خشیت اور خوف پیدا ہو ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ بندہ قبر، حشر، آخرت ساری بحثیں پڑھ لے اور اس کے اعمال میں، اس کی روح میں کوئ تبدیلی ہی نہ آئے - سلف میں ایسے لوگ بھی تھے جو قبر کا نام سنتے تو ان کو رو رو کر غشی کے دورے پڑ جاتے اور بے ہوش ہو جاتے -

 ایمان، ایمان بالغیب اور یورپ کا نظریہ فکر :

قرآن نے لفظ ایمان استعمال کیا ہے -مومن کے لیے سب سے پہلے ایمان بالغیب کی بات آتی ہے -یورپ نے یہاں سے نظریہ لیا  اور اس کے بالمقابل ایسے ایسے خطرناک جملے انسان کو دیے ہیں جن سے بندہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے -

 مثال :ہر وہ چیز جو محسوس ہو سکتی ہے وہ ہی موجود ہے اس کے علاوہ کسی چیز کا وجود نہیں - اس سے نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کا انکار، آخرت کا انکار اس طرح کے نتائج سامنے آتے ہیں - دیکھا جائے تو عقل بھی نہ نظر آنے والی چیز ہے اگر ان کا اس بات پر یقین ہے کہ محسوس ہونے والی چیز ہی موجود ہے تو پھر عقل بھی انسان محسوس نہیں کرسکتا پھر انسان کی عقل کےبارے میں یہ کیا کہتے ہیں یہ چیز ان کے لیے سوالیہ نشان ہے -

🖊️طالبہ:بنت ھناد

"// وما توفیقی الا باللہ //"

عن الكاتب

Peace Center

التعليقات


call us

اگر آپ کو ہمارے بلاگ کا مواد پسند ہے تو ہم رابطے میں رہنے کی امید کرتے ہیں، بلاگ کے ایکسپریس میل کو سبسکرائب کرنے کے لیے اپنی ای میل درج کریں تاکہ پہلے بلاگ کی نئی پوسٹس موصول ہو سکیں، اور آپ اگلے بٹن پر کلک کر کے پیغام بھیج سکتے ہیں...

تمام حقوق محفوظ ہیں۔

Peace Center