ذکر کا حقیقی تصور اور طریقہ کار
Peace Center Peace Center
recent

ہیڈ لائنز

recent
random
جاري التحميل ...

ذکر کا حقیقی تصور اور طریقہ کار

  

الحکمہ انٹرنیشنل شعبہ دعوت وتبلیغ کے زیر اہتمام خطبة الجمعة المبارک 

 موضوع

(حصہ سوم )

ذکر کا حقیقی تصور اور طریقہ کار

اسپیکر

فضیلة الشیخ قاری شفیق الرحمٰن زاہد حفظہ اللہ

 

۞۞┅═┅─۞۞

""""""""""

¤☆❀♤

ذکر کا حقیقی تصور اور طریقہ کار

    ہمیشہ ذہن نشین رکھیں کہ جب ذکر کی بات کی جائے تو ذکر سے مراد کوئی خاص تصور نہیں ہے یعنی جو صوفیوں یا خاص طبقے یا گروہوں کے ہاں پایا جاتا ہے بلکہ ذکر سے مراد ایک مکمل نظام حیات اور انسانی زندگی کا انفرادی و اجتماعی تصور ہے ذکر کسی خاص جگہ یا خاص الفاظ یا خاص کیفیت میں بیٹھنے کا نام نہیں ہے مثلا مراقبوں کی شکل میں، چلوں کی شکل میں اورخاص ورد (الفاظ) کی شکل میں کیونکہ ذکر کا جو تعارف ہمارے سامنے رکھا جاتا ہے ذکر کی وہ مراد ہرگز بھی نہیں ہے۔

ذکر کا مفہوم کیا ہے؟؟

«استحضار الله فی اللسان،والبدن والقلب»

یعنی ذکر سے زبان و دل پر اللہ کا تذکرہ اور احساس اور ایمان میں اللہ کی یاد باقاعدہ آنی شروع ہو جائے کیونکہ بسااوقات ذکر کے الفاظ سے اور بسااوقات ذکر کی معنویت سے بندہ الگ ہو جاتا ہے یاد رکھیں! کہ تمام کائنات ہی ذاکر ہے سوائے بدنصیب جنوں اور انسانوں کے مثلا اکثر و بیشتر انسان گدھے کو ضرب لگا رہا ہوتا ہے لیکن گدھا اللہ کے ذکر میں مشغول ہوتا ہے قرآن کہتا ہے۔

---   «وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَ لٰـكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِیْحَهُمْؕ»              [الاسراء: 44]

  اور کوئی بھی چیز نہیں مگر اس کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتی ہے اور لیکن تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے۔

---   «یُسَبِّحُ لله مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِۚ» [التغابن:1]

            اللہ کا پاک ہونا بیان کرتی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے۔

---   «سَبَّحَ لِله مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ» [الحدید: 1]

            اللہ کا پاک ہونا بیان کیا ہر اس چیز نے جو آسمانوں اور زمین میں ہے

---     «سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى» [الاعلٰی:1]

              اپنے رب کے نام کی تسبیح کر جو سب سے بلند ہے۔

    ان تمام الفاظ سے ذکر کے متعلق یہ آگاہی ہوتی ہے کہ کائنات کی ہر مخلوق اللہ کی تسبیحات بیان کرتی ہے سوائے بدنصیب جنوں اور انسانوں کے جو اللہ کے ذکر سے غافل رہتے ہیں۔ نیز انسان کے ذریعے پڑھے جانے والےالفاظ بھی کلماتِ الفاظ کے شعبوں میں سے ایک شعبہ ہیں مثلا:

۞--- سُبْحَانَ الله

۞--- وَالْحَمْدُ اللهِ

۞--- وَلَا اِلٰهَ اِلَّا الله

۞--- وَاللهُ اَکْبَرُ

۞--- لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللهِ

؞گویا کہ یہ الفاظ ذرائع ہیں اور یہ اللہ کی یاد کو زبان ، جسم اور دل میں لانے کے مظاہر ہیں مثلا:

   سُبْحَانَ الله پڑھنے کا طریقہ  

دنیا کے تمام الحادی، اشتراکی، انحرافی، شرکیہ، کفریہ اور بدعیہ جتنے عیوب اللہ کے متعلق لوگ سوچتے ہیں تو سُبْحَانَ اللہ پڑھنے سے یہ تصور بندے کے دل میں مضبوط ہونا چاھیئے کہ ہندوؤں، عیسائیوں اور یہودیوں کا جو نظریہ ہے اور کائنات میں چلنے پھرنے والے انسانوں کا بھی جو نظریہ عیوب سے متعلقہ ہے تو وہ سبحان اللہ پڑھے اور ان نظریات کو اپنی زبان، دل اور نظریہ سے نکال دے۔

   اَلْحَمْدُلله پڑھنے کا طریقہ

الحمد للہ سے بندے کو یہ بات یاد کروائی جاتی ہے کہ جو اللہ کے کمالات ہیں اور جو اللہ کے جمالات ہیں اس کے لیے الفاظ یہ استعمال کرنے ہیں ۔

   اَللهُ اَکْبَرْ پڑھنے کا طریقہ

اللہ اکبر دراصل یہ اللہ کی کبریائی اور بڑائی بیان کرنے کا ذریعہ ہیں جب بندہ یہ ذکر کرے تو فرش سے عرش تک تمام چیزوں کی کبریائی اسکے ذہن میں ہو اور بڑے بھی وہ جو سب بڑوں سے بڑے ہیں اور پھر ان تمام بڑوں کے مقابلے میں ایک اللہ بزرگ و برتر جو سب بڑوں سے بھی بڑا ہے تو بندہ اسکو تصور میں اس کبریائی سے لاۓ اور زبان اور نظریے میں بھی اسی طریقے سے لاۓ تو بات ہے۔

ذکر میں اصل چیز جو ہے وہ  "چیَتا"  یعنی (یاد رکھنا  اور یاد کرنا) ہے، بندہ ذکر کرے اور اللہ "چَیتے" میں نہ آئے تو سمجھ لو کہ ذکر خالی ایک تسبیح ہے اسی سے متعلق ایک اور بات یاد رکھیں کہ «اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِیْرًا» [الاحزاب: 41]"اے لوگو! جو ایمان لائے ہو! اللہ کو یاد کرو، بہت یاد کرنا"

یہاں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے کسی عبادت کے متعلق کثرت کا تقاضا نہیں کیا مثلا نماز دیکھ لیں، ارکان اسلام دیکھ لیں، عبادات، معاملات اور اخلاقیات دیکھ لیں مگر ذکر کے۔

کتنی کثرت ہے ؟؟

اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہےکہ جنت میں تمام عبادات کو ختم کردیا جاۓ گا (نماز، روزہ، حج اور اسلام کے دیگر ارکان و معاملات)صرف ایک عبادت کو باقی رکھا جاۓ گا اور وہ ذکر ہے قرآن کہتا ہے: «وَاٰخِرُ دَعْوٰهُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ» [یونس: 10]

"اور ان کی دعا کا خاتمہ یہ ہوگا کہ سب تعریف اللہ کے لیے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔"وہاں ایک ایک نعمت کو دیکھ کر لوگ اللہ کا شکر ادا کر رہے ہونگے مثلا اللہ کا شکر جس نے ہمیں ایسا پیارا مقام جنت میں دیا ہے اور پھر «الْحَمْدُ لِله الَّذِیْ اَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ»   [فاطر: 34]"اور وہ کہیں گے سب تعریف اس اللہ کی ہے جس نے ہم سے غم دور کردیا"اور«اَلْحَمْدُلِله الَّذِیْ هَدٰنَا لِهٰذَا وَمَاكُنَّا لِنَهْتَدِیَ لَوْلَا اَنْ هَدٰنَا اللّٰهُ» [الاعراف: 43]

"  تعریف تو اللہ ہی کے لیے ہے جس نے ہمیں یہ (جنت کی) راہ دکھائی اگر اللہ ہمیں یہ راہ نہ دکھاتا تو ہم کبھی یہ راہ نہ پاسکتےتھے۔" یعنی ہم  جنت کے وارث نہ بنتے یہ تمام چیزیں اشارہ کرتی ہیں کہ جو ذکر ہم خاص پریشانیوں اور خاص بیماریوں کا علاج سمجھ کر  وظیفہ کی صورت میں کرتے ہیں وہ ہماری سوچ وفکر سے بہت بڑا ہوتا ہے کیونکہ ذکر میں اصل حقیقت ہے مجاز نہیں ہے، ذکر میں بناوٹ نہیں ہے، ذکر عقلی و فلسفی نہیں ہے اور منطقی و تاریخی بھی نہیں ہے وہ لوگ جو لوگوں کو سوا لاکھ مرتبہ ورد کروا رہے ہوتے ہیں، انکا وقت ضائع کر رہے ہوتے ہیں، ان کو روحانیت اور ایمان سے دور کر رہے ہوتے ہیں انکو یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ اللہ کے رسول کے سامنے ایک بات کہی گئی کہ "برسولک" تو اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا نہیں، کہہ کہ "وبِنبیک" یہاں رسول کا لفظ نہیں ہے بلکہ یہاں بنبیک لفظ ہے " یعنی اتنی احتیاط تھی اسکے برعکس ہم تو تمام اذکار کی سیریز، کتابیں، آرٹیکل اور پروگرام سجا کر بیٹھے ہوتے ہیں اور یہ بھی یاد رکھیں کہ ایمان کے اضافے میں اگر کوئی سب سے بڑی چیز دنیا میں ہے تو ان لوگوں کے بات ہے جو صاحبِ ایمان ہیں اور ایمان کی بڑھوتی اور اضافے کے لیے ہمیشہ فکر مند رہتے ہیں ایمان کی زیادتی میں سب سے افضل، سب سے بڑی اور قیمتی ترین اگر کوئی چیز ہے تو وہ اللہ کا ذکر ہے

 حکمت کی بات

«وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ» [طٰهٰ: 14]  "اور میری یاد کے لیے نماز قائم کر۔" ہر عمل، ہر قول، ہر فعل اور ہر خیال جس میں اللہ یاد رہے اور اللہ یاد اس طرح رہے کہ بندے کو بات سمجھ آجاۓ کہ میری فرمانبرداری و اطاعت کے لائق صرف اللہ ہے، توکل کرنے کے اعتبار سے صرف اللہ ہے، انابت کے اعتبار سے صرف اللہ ہے اور رجوع کے اعتبار سے بھی صرف اللہ ہے اگر اسکا ذکر یہ تصورات پیدا نہیں کرتا اور وہ خالق سے نہیں جوڑتا بلکہ انسانوں سے جوڑتا ہے تو یہ سب بیماریاں ہیں کیونکہ«ذکر الله دواء وذکر الناس داء»لوگوں کے تذکرے اور لوگوں کی پریشانیاں بندے ہیں،، لہذا ذکر کرنے سے اگر اللہ کا ذکر، اللہ کی معرفت، اللہ کی عظمت، اللہ کی کبریائی اور اللہ کا تقرب (توجہ الی اللہ، تقرب الی اللہ) یہ پیدا نہیں ہوتا تو اس ذکر کو ذاکر کو عالم کے پاس  بیٹھ کر سیکھنے کی ضرورت ہے قرآن مجید اور احادیث میں ایسے بےشمار اذکار بیان کیے گئے ہیں ہم تو چھوٹی بیماریوں میں بڑے بڑے اذکار پڑھتے ہیں پھر بھی چھوٹی بیماریاں دور نہیں ہوتیں جبکہ اللہ کہتا ہے: کہ "چھوٹی بیماریوں کے ساتھ اگر بڑے بڑے شیاطین بھی آجائیں تو ذکر سے شیطانوں کو جگہ چھوڑنی پڑتی ہے چہ جائیکہ یہاں بیماری بندے کا ساتھ نہیں چھوڑتی قرآن کہتا ہے: «اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّهُمْ طٰٓئِفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَكَّرُوْا فَاِذَاهُمْ مُّبْصِرُوْنَ» [الاعراف:201] "بلاشبہ ولوگ اللہ سے ڈرتے ہیں انہیں جب کوئی شیطانی وسوسہ چھو بھی جاتا ہے تو چونک پڑتے ہیں اور فوراً صحیح صورت حال دیکھنے لگتے ہیں"

وہ لوگ جنکے دلوں میں اللہ کا تقوٰی ہے اگر ان کے پاس شیاطین نہیں بلکہ شیاطین کے بڑے بڑے لشکر، حاسد نہیں بلکہ حاسدین کے گروہ، شریر نہیں بلکہ شریروں کی بڑی بڑی جماعتیں آجائیں تو جب وہ ذکر کرتے ہیں تو ان کی آنکھیں کھلنا شروع ہوجاتی ہیں، وہ حقیقتوں کو سمجھنا اور اللہ سے جڑنا شروع ہو جاتے ہیں،اگر وہ ذکر کو ان تصورات سے نہ بھی کریں تو پھر بھی مسنون اذکار والفاظ انہیں فائدہ دیتے ہیں، نیز ان سے دنیاوی برکات اور فوائد بھی حاصل ہو جاتے ہیں لیکن آخرت کے معاملے میں وہ لوگ محروم ہوتے ہیں، یعنی اللہ کا ذکر غافل کرے یا اللہ کا ذکر کافر کرے یا اللہ کا ذکر یہودی بھی کرے تو ذکر کا یہ معجزہ اور برکت ہے کہ اس ذکر کی برکت سے وہ فوائد پھر بھی حاصل ہونا شروع ہو جاتے ہیں اگرچہ وہ لوگ ایمان، تقرب اور محبت الٰہی سے محروم ہوتے ہیں۔

 یاد رکھیں! کہ جہاں اللہ نے ترغیبِ ذکر دی ہے، وہاں اس نے الفاظِ ذکر بھی دیے ہیں یہ اسکی مہربانی ہےجس نے الفاظ دیے ہیں اس نے طریقہ بھی دیا ہے، اس نے مکمل اسلوب بھی دیا ہے کہ ذکر ہی نہ کر بلکہ ذکر کے الفاظ بھی میں تمہیں دیتا ہوں کہ ذکر کرنے میں تجھ سے کوئی غلطی نہ ہوجائے۔

   استغفار

اگر استغفار کو دیکھا جائےتو پتا چلتا ہے کہ انسان کی زندگی کا آغاذ بھی توبہ سے ہوتا ہے «رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ» [الاعراف: 23] "اے ہمارے رب ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقیناً ہم ضرور خسارہ پانے والوں سے ہوجائیں گے۔"  اسی طرح انسان کی زندگی کا اختتام بھی توبہ سے ہوتا ہے قرآن کی آخری سورت«فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ اِنَّه کَانَ تَوَّابًا»  [النصر:3]"تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کر اور اس سے بخشش مانگ، یقیناً وہ ہمیشہ سے بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔" اس آیت میں یہ کہا گیا ہے کہ اے حبیب! شریعت کا معاملہ مکمل ہوگیا ہے اب تیرا کام استغفار ہے

فرمانِ مصطَفٰےﷺ

«مَنْ لَزِمَ الِاسْتِغْفَارَ جَعَلَ اللهُ لَهُ مِنْ كُلِّ هَمٍّ فَرَجًا وَمِنْ كُلِّ ضِيقٍ مَخْرَجًا وَرَزَقَهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ»  [ابن ماجہ: 3819 |ضعیف]

"جو شخص استغفار کی پابندی کرے تو اللہ تعالیٰ اسے ہر غم سے نجات دیتا ہے ،اس کے لئے ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ بنادیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جہاں سے اس کو گمان نہیں ہوتا۔"

[عمل اور فائدہ]

جو شخص غموں سے لدا ہوا ہو وہ استغفار کو لازم پکڑ لے اللہ غموں کو خوشیوں میں بدل دے گا بھوک اور پیاس سے بللک بلک کر نہ مرنے اور مر جانے والے بندے کے لیے بھی رزق کا سب سے بڑا پیکج استغفار ہے اس کے پڑھنے سے اللہ پاک وہاں سے رزق دیگا جہاں سے گمان بھی نہیں ہوگا، بندہ توکل کر کے تو دیکھیے۔

   استغفار کے مسنون الفاظ

اَسْتَغْفِرُ اللهَ وَاَتُوْبُ اِلَیْهِ [مسلم؛ 1088 |صحیح]

"میں اللہ سے بخشش کا طلب گار ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں"

((اَسْتَغْفِرُ اللهَ الَّذِي لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْحَيَّ الْقَيُّومُ وَاَتُوبُ اِلَيْهِ)) [ابو داؤد؛ 1517 |صحیح]

"میں معافی مانگتا ہوں اللہ سے، وہ ذات کہ اس کے علاوہ اور کوئی معبود برحق نہیں، وہ زندہ ہے اور نگرانی کرنے والا ہے۔ اور میں اسی کی طرف توبہ اور رجوع کرتا ہوں"

(( رَبِّ اغْفِرْلِي وَتُبْ عَلَيَّ اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ )) [ابو داؤد؛ 1516|صحیح]

"اے میرے رب! مجھے بخش دے اور ( رحمت کے ساتھ ) میری طرف رجوع فرما۔ بلاشبہ تو بہت زیادہ رجوع فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے۔"

((لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ )) [المصابیح؛ 2292| صحیح]

"تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں، تو پاک ہے، بے شک میں ہی ظالموں میں سے تھا۔"

 «اللّٰهُمَّ اِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عنِّي» [ابن ماجه؛ 3850 |صحیح]

"اے اللہ! تو بہت زیادہ معاف کرنے والا ہے، تو معاف کرنا پسند کرتا ہے، لہذٰا مجھے معاف فرما دے"۔

(( اَللّٰهُمَّ اَنْتَ رَبِّي، لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنْتَ، خَلَقْتَنِي وَاَنَا عَبْدُكَ، وَاَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، اَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، اَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ، وَاَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي فَاِنَّه لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ اِلَّا اَنْتَ )) [بخاری؛ 6306|صحیح]

"اے اللہ! تو میرا رب ہےتیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں تو نے ہی مجھے پیدا کیا اور میں تیرا ہی بندہ ہوں میں اپنی طاقت کے مطابق تجھ سے کئے ہوئے عہد اور وعدہ پر قائم ہوں ان بری حرکتوں کے عذاب سے جو میں نے کی ہیں تیری پناہ مانگتا ہوں مجھ پر نعمتیں تیری ہیں اس کا اقرار کرتا ہوں میری مغفرت کر دے کہ تیرے سوا اور کوئی بھی گناہ نہیں معاف کرتا۔"

سید الاستغفار سے تو سارا جہاں مل جاتا ہے جو تمام زندگی محنت کر کے گھر نہیں بنا سکتا تو اسکی بھی ان الفاظ کے پڑھنے سے قبر بن جاتی ہے اللہ کہتا ہے! جس کا دنیا میں گھر نہیں ہے وہ آئے اور استغفار پڑھے اگر 24 گھنٹے میں مر گیا تو چھوٹا گھر بےشک نہ ملا ہو لیکن بڑے محلات ضرور دونگا

فرمانِ مصطَفٰےﷺ

«كَانَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ذَهَبَ ثُلُثَا اللَّيْلِ قَامَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا الله، ‏‏‏‏‏‏اذْكُرُوا الله جَاءَتِ الرَّاجِفَةُ تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ جَاءَ الْمَوْتُ بِمَا فِيهِ جَاءَ الْمَوْتُ بِمَا فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أُبَيٌّ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللہ،‏‏‏‏ إِنِّي أُكْثِرُ الصَّلَاةَ عَلَيْكَ فَكَمْ أَجْعَلُ لَكَ مِنْ صَلَاتِي؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا شِئْتَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ الرُّبُعَ؟ قَالَ:‏‏‏‏ مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ النِّصْفَ؟ قَالَ:‏‏‏‏ مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ، قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ فَالثُّلُثَيْنِ؟ قَالَ:‏‏‏‏ مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ أَجْعَلُ لَكَ صَلَاتِي كُلَّهَا،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ إِذًا تُكْفَى هَمَّكَ وَيُغْفَرُ لَكَ ذَنْبُكَ» [ترمذی؛ 2457 |صحیح]

جب دو تہائی رات گزر جاتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھتے اور فرماتے: لوگو! اللہ کو یاد کرو، اللہ کو یاد کرو، کھڑکھڑانے والی آ گئی ہے اور اس کے ساتھ ایک دوسری آ لگی ہے، موت اپنی فوج لے کر آ گئی ہے۔ موت اپنی فوج لے کر آ گئی ہے، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں آپ پر بہت صلاۃ  ( درود )  پڑھا کرتا ہوں سو اپنے وظیفے میں آپ پر درود پڑھنے کے لیے کتنا وقت مقرر کر لوں؟ آپ نے فرمایا: ”جتنا تم چاہو“، میں نے عرض کیا چوتھائی؟ آپ نے فرمایا: ”جتنا تم چاہو اور اگر اس سے زیادہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہےمیں نے عرض کیا: آدھا؟ آپ نے فرمایا: جتنا تم چاہو اور اگر اس سے زیادہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے، میں نے عرض کیا دو تہائی؟ آپ نے فرمایا: جتنا تم چاہو اور اگر اس سے زیادہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے، میں نے عرض کیا: وظیفے میں پورا وقت آپ پر درود پڑھا کروں؟ ۔ آپ نے فرمایا: اب یہ درود تمہارے سب غموں کے لیے کافی ہو گا اور اس سے تمہارے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔"

یاد رکھیں! کہ درود میں 2 ہی ذاتیں ہیں ایک اللہ اور ایک اسکے رسول ﷺ  کی ذات، جہاں تک "إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ" کی بات ہےتو جسکو یہ نقطہ سمجھ آجاۓ اسکو درود کی بنیاد اور سارے کنارے سمجھ آجاتے ہیں جو آدمی صبح وشام درود پڑھتا ہے اسکو 10 نیکیاں ملتی ہیں، اسکے 10 گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور اسکے  10 درجے بلند کر دیے جاتے ہیں۔

فرمانِ مصطَفٰےﷺ

«مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً صَلَّى الله عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ سَلُوا لِيَ الْوَسِيلَةَ فَإِنَّهَا مَنْزِلَةٌ فِي الْجَنَّةِ لَا تَنْبَغِي إِلَّا لِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِ الله وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا هُوَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ سَأَلَ لِيَ الْوَسِيلَةَ حَلَّتْ عَلَيْهِ الشَّفَاعَةُ» [ترمذی؛ 3614 |صحیح]

 جس نے میرے اوپر ایک بار درود بھیجا تو اللہ اس پر دس بار اپنی رحمتیں نازل فرمائے گا، پھر میرے لیے وسیلہ مانگو کیونکہ وہ جنت میں ایک  ( ایسا بلند )  درجہ ہے جس کے لائق اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندہ ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ وہ بندہ میں ہی ہوں اور جس نے میرے لیے  ( اللہ سے )  وسیلہ مانگا تو اس کے لیے میری شفاعت حلال ہو گئی“

لہذا ذکر کے صحیح تصور اور ذکر کے صحیح الفاظ سے جڑنے کی کوشش کریں  اور جہاں ہم ذاکر بنتے ہیں وہاں اللہ ہمیں ذکر کا صحیح ذوق، ذکر کا فہم اور فقہ بھی عطا فرمائے۔

{آمین اللّٰهم آمین}

«سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُوْنَ۞وَ سَلٰمٌ عَلَى الْمُرْسَلِیْنَ۞وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۞»

             

🪷||| وما توفیقی الا باللہ |||🪷

اللّٰهم لیس لی سواک فأعنی

عن الكاتب

Peace Center

التعليقات


call us

اگر آپ کو ہمارے بلاگ کا مواد پسند ہے تو ہم رابطے میں رہنے کی امید کرتے ہیں، بلاگ کے ایکسپریس میل کو سبسکرائب کرنے کے لیے اپنی ای میل درج کریں تاکہ پہلے بلاگ کی نئی پوسٹس موصول ہو سکیں، اور آپ اگلے بٹن پر کلک کر کے پیغام بھیج سکتے ہیں...

تمام حقوق محفوظ ہیں۔

Peace Center