بچوں کو گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کا شعور لازمی دیں
Peace Center Peace Center
recent

ہیڈ لائنز

recent
random
جاري التحميل ...

بچوں کو گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کا شعور لازمی دیں

 

*🥀بچوں کو  گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کا شعور لازمی دیں* 🥀

==============


"انکل'انکل مجھے یہ گرین والی سلانٹی دیدیں" سات سالہ معصوم ہانیہ چیزوں کی دوکان پر چیزوں کیلئے بنائے گئے شوکیس پر ہاتھ ٹکائی کھڑی تھی ۔ 

"بیٹا آپ ایسا کرو یہاں اندر آکر لے لو یہاں سے آپ کو باقی چیزیں بھی دکھیں گی آپ جو چاہو لے لینا " کامران دوکان والے نے اپنی غلیظ نظریں اس معصوم بچی پر گاڑتے ہوئے کہا۔

"جی انکل ٹھیک ہے " بھولی صورت لئے وہ بچی فورا دوکان کے اندر جا گھسی ۔ بچی اپنی آنکھوں کو پٹپٹاتے ہوئے دوکان کے اندر رکھی مختلف چیزوں کو دیکھنے میں مصروف تھی کہ اچانک اسے احساس ہوا کہ جیسے کسی نے اسکا ہاتھ پکڑا ہو۔

"انکل مجھے جلدی سے یہ سلانٹی دے دیں پھر میں گھر جاؤں "ہانیہ نے ہاتھ پیچھے کیا اور دوسرے ہاتھ میں پکڑا نوٹ دوکاندار کو تھمانے لگی۔

"جی جی بیٹا دیتا ہوں ۔ آپ یہاں تو آؤ " وہ دوبارہ اسکا ہاتھ پکڑنے لگا لیکن ہانیہ نے فورا اپنا ہاتھ پیچھے کیا ۔ *اسے اپنی کلاس ٹیچر کی کہی بات یاد آئی"بچو کوئی بھی دوکاندار یا باہر کے* *انکل اگر آپکا ہاتھ پکڑیں یا آپکو اپنے پاس* *بلائیں تو وہاں ایک منٹ بھی رکنا نہیں ہے بلکہ فورا* *وہاں سے بھاگ جائیں* اور گھر واپس آجائیں اور ہاں گھر آکر لازمی مما کو یہ بات بتانی ہے " اس بات کے ذہن میں آتے ہی اس کی تمام حسیات بیدار ہوچکی تھیں۔

دوکاندار کا ہاتھ دوبارہ اپنی طرف آتا دیکھ کر وہ وہاں سے تیز قدموںبکے ساتھ واپس باہر نکلی ۔ اپنا نوٹ وہیں رکھا چھوڑ کر وہ پیچھے دیکھا بغیر بس بھاگتی جارہی تھی گھر کے دروازے تک پہنچتے ہی اس نے زور سے دروازہ پیٹا ۔

"مما مما وہ مما " تیز تنفس کے ساتھ اس سے کچھ بولنا بہت مشکل ہورہا تھا۔

"بولو ہنی بیٹا کیا ہوا ۔ آپ تو چیز لینے گئیں تھیں نا پھر کیا ہوا ۔ آپکا سانس اتنا پھولا ہوا کیوں ہے " زینب کی والدہ نے اسے کاندھوں سے پکڑ کر گلے لگاتے ہوئے پوچھا ۔ وہ اسکو پر سکون کرنے کیلئے اسکی کمر بھی سہلا رہی تھیں۔

"مما وہ دوکان والے انکل ہیں نا وہ وہ "ہانیہ اب بھی گھبرائی ہوئی تھی کبھی دروازے کی طرف دیکھتی تو کبھی اپنی ماں کی طرف۔

"بولو میری بچی بتاؤ مجھے کیا بات ہے۔ کیا کیا انھوں نے " سمجھ تو وہ ہانیہ کی حالت سے بہت کچھ گئیں تھیں لیکن پھر بھی ہانیہ سے پوچھنا چاہتی تھیں کہ اس دوکاندار نے کیا کیا تھا .

"مما انھوں نے پہلے مجھے دوکان کے اندر بلایا پھر میرا ہاتھ بھی پکڑا ۔ میں نے چھڑوایا تو دوبارہ پکڑنے لگے پھر میں بھاگ کر گھر آگئئ"۔ اس کی آنکھیں گزرے واقعے کو یاد کرکے بھیگنے لگی تھیں ۔

"آپ یہاں بیٹھو پہلے پانی پیو پھر سکون سے میری بات سنو " عقلمند عورت تھیں جانتی تھیں معاشرہ نہیں بدل سکتیں باہر موجود بھیڑیوں کی نگاہیں نہیں نوچ سکتیں ، ہوس کے پجاریوں کے گند میں ڈوبے ہاتھ نہیں توڑ سکتیں لیکن اپنی بچی کو تربیت دے سکتیں ہیں۔ اسے ان راستوں سے دامن بچا کر چلنے کے طریقے بتاسکتی ہیں ۔ 

وہ جانتی تھیں انہیں اپنی معصوم عصمت کی حفاظت خود کرنی ہوگی اب کوئی اہم قاسم نہیں آئیگا ان کی عزت و جان کی حفاظت کرنے ۔ انھوں نے اپنا کام شروع کیا۔

"ہانی سب سے پہلی بات آج کے بعد آپ باہر اکیلے نہیں نکلیں گی ۔ مما کے ساتھ جائیں گی ، بابا کے ساتھ یا بھیا کے ساتھ ۔ اکیلے بالکل ختم ہے آپکا نکلنا ۔ 

 *دوسری بات آپکو میں نے باہر نکلنے کی ساری دعائیں سکھائیں تھیں نا وہ پڑھ کر نکلا کریں ۔ دعاؤں سے اللّہ* *حفاظت کرتا ہے* ۔ اگلی بات کسی کے ساتھ بھی دوکان پر یا کہیں بھی جائیں گی دوکان کے اندر نہیں جائینگی ۔ بابا کا یا بھیا کا ہاتھ پکڑے رہینگی۔ دوکان والے انکل سے خود کچھ بھی نہیں کہیں گی اور اگر کبھی آئندہ دوکان والے ہاتھ پکڑیں تو فورا بھاگ کر آئیں گی جیسے آج آئیں ہیں اگر وہ پھر بھی ہاتھ نہ چھوڑیں تو چیخ ماریں گی تیز تیز بہت تیز ۔ اگر پھر وہ منہ پر ہاتھ رکھیں تو سب سے پہلے انکے ہاتھ پر کانٹیں گی اپنے تیز دانتوں سے۔ بہت تیز ۔ جیسے ہی وہ آپکے کاٹنے سے آپکا منہ چھوڑیں یا آپ فورا بھاگیں گیں یا جو بھی چیز آپکو قریب دکھے انکل کے سر پر زور سے ماریں گی ٹھیک ہے بیٹا ۔ مگر سب سے اہم بات آج کے بعد آپ اکیلی باہر نہیں جائیں گی " بات مکمل کرکے اسے ایک بار پھر گلے سے لگایا اور اسے پر سکون کرکے بستر پر لٹا دیا۔

ہانیہ تو سکون میں أگئئ تھی مگر ہانیہ کی ماں کا سکون لٹ گیا تھا ۔ وہ پریشان ہوگئیں تھیں کہ وہ ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں کم سن بچیوں پر اپنی شہوت کیلئے نگاہ غلط رکھی جاتی ہیں ۔یہ سب کچھ وہ اکیلی نہیں بدل سکتی تھیں کیونکہ اب یہ معاشرہ پور پور اس غلاظت میں ڈوب چکا ہے لیکن ہاں وہ اپنی بچی کی حفاظت کیلئے خود حرکت میں ضرور آسکتی تھیں اور سب سے پہلی انقلابی حرکت انکی طرف سے یہی ہوسکتی تھی کہ اپنی بچی کو تنہا باہر نہ نکلنے دیا جائے ۔

 *انتخاب،، عابد چوہدری* 


تحریر کو صدقہ جاریہ اور اللہ کی رضا کی نیت سے اپنے پیاروں کے ساتھ شیئر کیجئے ہو سکتا ہے اپ کی تھوڑی سی محنت یا کوشش کسی کی ہدایت کا ذریعہ بن جائے


عن الكاتب

Peace Center

التعليقات


call us

اگر آپ کو ہمارے بلاگ کا مواد پسند ہے تو ہم رابطے میں رہنے کی امید کرتے ہیں، بلاگ کے ایکسپریس میل کو سبسکرائب کرنے کے لیے اپنی ای میل درج کریں تاکہ پہلے بلاگ کی نئی پوسٹس موصول ہو سکیں، اور آپ اگلے بٹن پر کلک کر کے پیغام بھیج سکتے ہیں...

تمام حقوق محفوظ ہیں۔

Peace Center