وادی نیلم کی سیر
(دوسری قسط)
------------------------------
معوَّذُ الرَّحْمٰن
(ریسرچ اسکالر الحکمہ انٹرنیشنل لاہور)
نمازِ فجر کے بعد استاذِ گرامی شفیق الرحمن زاہد صاحب نے اصلاحی گفتگو فرمائی جس کی روداد بر وقت قارئین کی نذر کر دی تھی لیکن چند اہم نکات پیشِ خدمت ہیں:
نمازِ پنجگانہ کی حفاظتروزانہ تلاوتِ قرآن اور ایک حدیث سننا یا سنانا
اور اللہ کے ذکر کی تسبیحات کرنا
اہم تسبیحات:
1: سبحان اللہ وبحمدہ
2: سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم
3:سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر
4: درود ابراہیمی
5: استغفرُللہ الذی لا الہ الا ھو الحی القیوم واتوب الیہ
6: حسبی اللہ لا الہ الا ھو علیہ توکلت وھو رب العرش العظیم
7: یا حی یا قیوم
8: لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین
شہر مظفرآباد سے 30 کلومیٹر دور خوبصورت مقام پیر چناسی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ شیڈول کے مطابق پیر چناسی کی جانب بڑھے لیکن ڈرائیور صاحب بھول گئے اور ہم دریائے نیلم کے مسافر بن گئے۔
بل کھاتے خطرناک موڑ، گھنا جنگل، ایک طرف ہزاروں فٹ کی بلندی اور دوسری طرف گہری ترین وادیاں، ٹھنڈی یخ ہوا اور خطرناک راستوں پر سفر ایسا کہ اگر خدانخواستہ کوئی لڑھک جائے تو وادیِ نیلم سے سیدھا وادیِ فنا ہی میں پہنچے۔
مظفر آباد سے 33 کلو میٹر کی مسافت پر دھانی واٹر فال ہے۔ ہمارے بعض مفکرین نے اسے پاکستانی بولر شاہ نواز دھانی کی طرف منسوب کیا لیکن حقیقت اس کے کتنی قریب ہے اہلِ علاقہ بخوبی جانتے ہیں۔ دھانی واٹر فال سے نکلتے ہی قریباً سات کلو میٹر کی مسافت پر نیلم جہلم ہائڈرو پاور آتا ہے اور سیاحوں کےلیے خوبصورت منظر پیش کرتا ہے۔
خیر! ہم راستے میں آبشاروں سے اٹھکیلیاں کرتے گزرتے گئے کیونکہ ہمارا اصل قیام کٹن شنگوش گاؤں میں تھا اس لیے زیادہ وقت سفر کو دیتے رہے۔
ڈرائیور کی نشاندھی سے کیرن مقام پر ہم نے مقبوضہ کشمیر کی پہاڑیاں بھی دیکھیں جو ہماری نسبت زیادہ بلند اور سر سبز و شاداب ہیں۔ مقبوضہ اور آزاد کشمیر کی پہاڑیوں میں فرق کرنے والی صرف دریائے نیلم کی لکیر ہے۔ یہاں رُکے، نظریہ پاکستان کے حوالے سے کچھ گفتگو کی اور پھر اپنی منزل کی جانب روانہ ہوئے۔
نمازِ ظہر اور عصر کنڈل شاہی سے آگے کُٹن بازار کی مسجد میں ادا کی اور نواحی علاقہ شنگوش کی جانب ہو لیے۔
یہ راستہ بالکل کچا ہے اور نسبتاً چوڑائی بھی بہت کم ہے۔ مزید یہ کہ بارش بھی تسلسل سے جاری تھی۔ اس راستے پر نکلے تو بے ساختہ گاڑی تسبیحات سے گونج اٹھی۔
یہاں پہنچنے پر عمر بھائی نے پُرتپاک استقبال کیا۔ نمازِ مغرب کے بعد ہمارا تبلیغی پروگرام کُٹن سے 28 کلو میٹر بلندی پر واقع چنجاٹھ کی جامع مسجد صدیق اکبر میں تھا۔ چنانچہ بارش کی رم جھم کے باعث لیٹ ہوگئے۔ نمازِ مغرب جامعہ اسلامیہ سلفیہ میں ادا کی اور واپس پروگرام کے لیے کُٹن کی جانب چل دیے۔ابھی گاڑی دو گام چلی تھی کہ پیٹرول ختم ہو گیا اور ہم لوگ دھکا لگانے میں مشغول ہوگئے۔
اس موقع پر اپنے اسلاف کی بہت یاد آئی کہ کن کَٹھن مراحل سے گزر کر انہوں نے تبلیغ کی تھی، کئی ایک واقعات ذہن میں گھوم گئے اور آنکھوں کو نمی دے گئے۔ یہاں ان کے ذکر کا محل نہیں۔
اب جیسے جیسے جیپ اوپر جا رہی تھی ساتھ ساتھ دل کی دھڑکنیں بھی اوپر اٹھ رہی تھیں۔
اللہ اللہ کر کے منزلِ مقصود پر پہنچے تو اہلِ علاقہ کی محبتیں دیکھ کر آنکھیں روشن ہوگئیں۔
تفہیمِ قرآن کے متعلق چند معروضات رکھیں اور واپس جامعہ اسلامیہ سلفیہ شنگوش پہنچ گئے جہاں مسجد کے اوپر اسپیشل مہمان خانہ تعمیر کیا گیا ہے یہیں پر قیام کیا۔ (جاری)