وادی نیلم کی سیر
(تیسری قسط)
------------------------------
معوَّذُ الرَّحْمٰن
(ریسرچ اسکالر الحکمہ انٹرنیشنل لاہور)
یہاں سے دریائے نیلم گزرتا ہے اور پوری آب و تاب سے گزرتا ہے۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ہم جب مسجد میں داخل ہوئے تو یوں محسوس ہو رہا تھا کہ کسی نے فل سپیڈ میں پنکھا چلا رکھا ہے اور ہم پریشان تھے کہ اس قدر سردی میں پنکھے کی کسے ضرورت ہے، قریب جا کر دیکھا تو وہ پنکھا نہیں بلکہ دریائے نیلم اپنی گرج دار آواز سے سب کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے۔
نمازِ فجر کے بعد ہمت باندھتے ہوئے نہائے اور دریائے نیلم سے سر گوشیاں کرنے پتھروں کی اوٹ میں جا بیٹھے۔ سچ پوچھیں تو یہی وہ جگہ تھی جہاں ہم نے خوب انجوائے کیا۔
تیز بارش کے سبب مہمان خانے میں اشعار کی گولہ باری ہوئی جس میں طلبہ متخصصین سے عبداللہ حماد اور عاقب اشرف نے سامعین کو خوب محظوظ کیا۔ جامعہ اسلامیہ سلفیہ سنگوش کی دیکھ بھال اس وقت عمر بٹ صاحب کے ہاتھ میں ہے۔
مناسب رہے گا اگر ہم مختصراً ان کی محنت کا ذکر کر دیں کہ موصوف نے کیا کیا کارِ خیر شروع کر رکھے ہیں:
(1) محمدیہ یونائیٹڈ فری ڈسپینسری
یہ ڈسپینسری نیلم کے حلقہ لوئر کی واحد ڈسپینسری ہے جو عوام کو فری ادویات اور ان کا فری چیک اپ کرتی ہے۔
(2) امیدِ سحر ماڈل سکول
اس سکول میں تقریباً 100 کے قریب بچے پڑھ رہے ہیں اور یہ وہ بچے ہیں جن کے والدین کسی مجبوری کے باعث اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ استاذِ گرامی شفیق الرحمن زاہد صاحب نے سکول کے بچوں سے گفتگو کرتے ہوئے اسلام کی ابتدائی چیزوں (جو عقائد سے تعلق رکھتی ہیں) کے متعلق گفتگو کی۔
(3) فری ایمبولینس
کسی بھی ناگہانی آفت میں بلا معاوضہ اپنی خدمت فراہم کرتی ہے۔
(4) ریسکیو آپریشن
بقول عمر بھائی ہماری اس ٹیم کے علاوہ ریسکیو آپریشن کرنا ناممکن ہے۔
(5) ووکیشنل ٹریننگ سینٹر
اس پروگرام کے تحت غریب اور یتیم بچیوں کو ہُنر مند بنانے کےلیے سلائی، کڑہائی کا کام سکھایا جا رہا ہے۔
بلاشبہ یہ خدمات دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔
تقریباً 12:00 یہاں سے شاردہ کے لیے نکلے۔ یہاں اتنی دیر رکنے کا مقصد یہ تھا کہ گزشتہ شب سے بارش مسلسل جاری تھی، راستے کی کیفیت ہم گزشتہ روداد میں ذکر کر چکے ہیں۔
کُنڈل شاہی بازار سے بائیں ہاتھ اوپر کی طرف نکلنے والی سڑک پر ایک سے ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلے پر نہایت ہی دل کش آبشار آتی ہے جسے کنڈل شاہی واٹر فال المعروف کُٹن واٹر فال کہتے ہیں، وقت کی قلت کے پیشِ نظر ہم نے گاڑی سے ہی نظارہ کیا۔ کُنڈل شاہی بازار سے مین روڑ پر رہتے ہوئے سیدھا آگے بڑھتے جائیں تو چند کلومیٹر آگے اٹھمقام آتا ہے۔ اٹھمقام سے 12 کلومیٹر آگے کیرن بارڈر کا مشہور سیاحتی مقام آتا ہے۔ جیسے جیسے ہم بلندی کی جانب بڑھ رہے تھے دریائے نیلم سکڑتا جا رہا تھا، دریائے نیلم کے گردو پیش بسنے والے گھر کھلونے محسوس ہو رہے تھے اور ہم نیچے دیکھ کر اپنے گناہوں کو یاد کرتے ہوئے استغفار کر رہے تھے۔
شاردہ کے قریب دودھنیال پہنچے تو بھوک نے ڈیرے جما لیے۔ یہاں رکے اور کھانے سے فارغ ہو کر قریبی مسجد میں نماز مغرب اور عشاء ادا کرنے کے لیے چل دیے۔
نماز کے بعد ہماری ملاقات ہوتی ہے سلیم بٹ صاحب سے۔ آگے کیا واقعہ پیش آیا طوالت کے ڈر سے حذف کرتے ہیں اور ایک پتے کی بات ذکر کرتے ہیں۔ اس طرح کے سیاحتی علاقوں میں اگر کوئی آپ سے زیادہ ہی محبت بھرے لہجے میں بات کرے یا آپ کا خیر خواہ بنتے ہوئے آپ کو وہاں کی خوبصورتی، رات سفر نہ کرنے کی اور اپنی طرف سے کچھ حوصلہ افزا بات کرے تو اس کی باتوں پر کان بالکل نہ دھریں۔
یہ ہمارا آخری مقام ٹھہرا، ماں گیسٹ ہاؤس دودھنیال رات قیام کیا اور فجر کی نماز گیسٹ ہاؤس میں ادا کرتے ہی واپسی کا سفر شروع ہوا۔
(جاری)