✍فقہ الاذکار سیریز
🎤معلم
و مربی🎤
(حافظ
شفیق الرحمن زاہد صاحب حفظہ اللہ تعالی)
دعائے عافیت کاجامع مفہوم
پریشانیوں سے نجات اور باعث سکون وظیفہ
اَللّٰھُمَّ عَافِنِیْ فِیْ بَدَنِیْ،
اَللّٰھُمَّ عَافِنِیْ فِیْ سَمْعِیْ، اَللّٰھُمَّ عَافِنِیْ فِیْ بَصَرِیْ لَا
اِلٰهَ اِلَّا اَنْتَ۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْکُفْرِ وَ
الْفَقْرِ، اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، لَا اِلٰهَ
اِلاَّ اَنْتَ۔
(سنن ابی داؤد،5090)
دعا
1.ذکر کے
اعتبار سے
2.فقہ کے
اعتبار سے
ایک ہے اصولوں پر نظر لگانا اور ایک ہے ویسے نظر لگانا کہ آپ کی نظریں لفظ پڑھ کر اٹھاتی کیا ہیں یہ تدبر کا انداز ہے جو اصولوں کی چھتری میں
اصولوں کی راہنمائی میں رہ کر ہوتا
ہے کہ آپ کی آنکھ اس دعا سے کیا اٹھاتی ہے کیا observation
کرتی ہے.
آنکھ کو ایک دفعہ الگ الگ جملوں پر، پھر پوری دعا پر لگائیں اور یہ دیکھیں جو روزانہ میں یہ لفظ پڑھتا ہوں یہ دعا پڑھتا ہوں اس دعا سے نکالتا کیا ہوں.
جتنی باریکی سے نظر لگے گی اتنی باریکی سے دماغ لگے گا اور
اتنی ہی باریکی سے دل آگے فیصلہ کرتا جائے گا.
= اللّٰھم. =
جملہ ندائیہ ہےدیکھنا یہ ہے کہ :
~ جملہ ندائیہ میں فکر کتنی ہے.
~جملہ ندائیہ میں درد کتنا ہے.
~ یہ ندا بھی ہے کہ نہیں؟؟
یہ واقعی پکار بن جاتی ہے آپ کی پکار جو لگتی ہے وہ نگاہ کی شکل میں پکار کہاں کہاں تک جاتی ہے اور کس کس کے دل تک جاتی ہے. اپنے حسن کے اعتبار
سے، معیار کے اعتبار سے، اپنی ایمان کی حلاوت کے اعتبار سے، چاشنی کے اعتبار سے، درد دل کے اعتبار سے جب آپ کہیں گے تو واقعتا پکار پورے
آسمان اور زمین میں سنی جاتی ہے کہا جاتا ہے نا کہ وہ بولتا ہے تو سب سنتے ہیں سب متوجہ ہوتے ہیں تو کیا واقعتا میری پکار ایسی ہے جس پر پوری مخلوقات
خاص طور پر وہ جن کے پہرے لگنے ہوتے ہیں متوجہ
ہوتی ہیں؟؟؟
= روحانی اور ایمانی پہرے =
یاد رکھیں یہ صرف دعائیں نہیں ان پر پورے روحانی پہرے لگے ہوتے ہیں جیسے کسی جگہ موبائل چارج کرنے کے لیے سوئچ لگاتے ہیں تو فوری کرنٹ
آتا ہے سگنل آتے ہیں اور موبائیل میں اس کا ایکشن ری ایکشن آتا ہے اسی طرح جب دعا کے الفاظ اوپر جاتے ہیں تو فرشتے بھی ایکٹو ہوجاتے ہیں. بندہ
پہلے سگنل پر پہنچے گا تو فلاں ٹیم آئے گی اگلے پر پہنچے گا تو فلاں ٹیم آئے گی اور جب بوسٹر کے قریب پہنچے گا تو سنگل زیادہ آئیں گے جب دور جائے گا تو
سگنل کم ہوجائے گا جب زیادہ دور جائے گا تو کبھی آئیں گے کبھی
نہیں آئیں گے...
اسی طرح جب آپ اللہ تعالی کو پکارتے ہیں اللہ تعالیٰ بسا اوقات کسی انسان کو آپ کے لیے کھڑا کردیتا ہے بسا اوقات کسی جن کو اور بسا فرشتوں کو بھی
کھڑا کر دیتا ہے. فرشتوں کی بھی پوری کیٹگریز ہیں. سمجھانے کے لیے ایسے ہے جیسے ہائی کورٹ، سپریم کروٹ اور پھر اس سے اوپر بھی سپریم پر سپریم
کورٹ
پورا چیک رکھ رہی ہوتی ہے اسی طرح فرشتوں کی ٹیمیں ہیں.
ہر بندے کی مدد کے لیے جبریل علیہ السلام نہیں آتے ہر بندے کی گمراہی کے لیے براہ راست شیطان نہیں آتا . جبریل علیہ السلام کے لشکر اور جبریل
علیہ السلام تب ہی آتے ہیں جب اس لیول کی پکار ہو. ہر بندے کی پکار پر چیف جسٹس
ازخود نوٹس نہیں لیتا، ہر بندے کے کیس کو جرنل خود نہیں کھولتا.
اللّٰهُمَّ ! خالی پکارنے کا نام نہیں ہے. پکارنے کے
ساتھ روحانیت کا نام ہے.
روحانیت اصل میں ایمانیات ہے.
بندہ پکارتا ہے. اے میرے اللہ! اللہ تعالیٰ کہتے ہیں اے میرے بندے! بندہ کہتا ہے اے میرے اللہ! اس طرح
پکار چلتی ہے.
رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری رات ایک آیت پر لگادی آپ نماز پڑھتے سینے سے ایسے آواز آتی جیسے ہنڈیا کھول رہی ہو. "جب ایک آیت
پر پوری رات گزری ہے تو سوچیں کتنی گہرائیوں میں اللہ کے رسول
صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوں کتنا زیادہ ایمان ہوگا؟؟
یہ سارے معاملات صرف رسول کائنات کے ساتھ نہیں صحابہ
کے ساتھ بھی ہوئے ہیں." بعض لوگوں نے اس پر لکھا بھی ہے کہ قرآن کیسے اثر کرتا
ہے.
قل اوحی انہ استمع نفر من الجن فقالوا انا سمعنا
قرآنا عجبا
- استعمع -
یعنی باقاعدہ دل کی آنکھ کے ساتھ پوری توجہ
سے تکلف کے ساتھ سنا....یہیں سے پتہ چلتا ہے جب اس طرح دل سے سنا جائے گا تو خود بخود
انا سمعنا خود بخود نکلے گا.
دماغ میں اس سین کو لے کر آئیں کہ آپ یہاں زمین سے کہیں
اللّٰهُمَّ ! اے میرے اللہ اور ادھر عرش بریں پر اللہ کہے اے میرے بندے. یہ نہیں ہوسکتا آپ دس مرتبہ اللہ کہیں تو اللہ آپ کو ایک مرتبہ یاد
کرے وہ ادھار نہیں رکھتا اور نہ ہی برابر برابر رکھتا ہے. بعض اوقات ہوتا ہے یضعف له، بعض أوقات اضعافا كثيره،اور بعض أوقات اللہ تعالی کہتے
ہیں بغیر حساب فرشتوں کہتے ہیں کہ یہ بندہ اب لیول پر پہنچ گیا ہے اس دررد کو پہنچ گیا ہے کہ اس درد کو لکھنا تمہارے بس کی بات نہیں ہے. تم لکھنا
چھوڑ دو اس کو بغیر حسابوں میں آنے دو.
= عافنی فی بدنی =
اے اللہ دکھوں کا مارا ہوا پریشانیوں کا
ستایا ہوا مصائب اور مشاکل کا مارا ہوا ہوں
میرا دل چاہتا ہے کہ تو مجھے عافیت دے نا......
اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہاں دوں کس کی عافیت دوں؟ میری عافیت تو پورے جہانوں میں بھری ہوئ ہے. بندہ کہتا ہے اللہ میرا پورا جسم عافیت سے بھر دے... ایک
ہے عافیت
دینا اور ایک ہے عافیت بھرنا. پہلے کل ہے پھر جز ہے. اللہ ایسی عافیت دے دے کہ میں اور عافیت ایک ہوجائیں.
جب آپ علم کے لیے نکلتے ہیں سمندر میں مچھلیاں، فرشتے، چیونٹیاں، مخلوقات آپ کے لیے دعا کرتی ہیں تو گویا کہ آپ کے بارے میں چیونٹیوں کو مخلوقات کو اللہ
تعالیٰ متوجہ دیتا ہے کہ میری بات شروع ہوگئ ہے توجہ سے سنو اور میرے اس بندے کے لیے مغفرت اور رحمت کی دعا کرو. میرا یہ بندہ سفر علم وحی کے لیے نکلا
ہے. آپ کی پکار اس وقت اتنی عام ہوجاتی ہے کہ سب تک جاتی ہے.
عافیت کسے کہتے ہیں عافیت میں سب سے بڑی عافیت کونسی
ہے؟؟؟
= کفر سے عافیت.
= شرک سے عافیت.
= نفاق سے عافیت.
= بدعات و خرافات سے عافیت.
جس کو اللہ ایمان اور صحت یہ
دو چیزیں دے دے تو سمجھیں سب کچھ دے دیا.
عافیت دو
طرح کی ہوتی ہے :
1.ایمانی شکل میں...
2. مادی شکل میں....
اللہ سے عافیت مانگی ہو اور عافیت آجائے تو وہ عافیت اتنا سکھ دے جاتی ہے کہ بندہ وینٹیلیٹر پر بھی خوش ہوتا ہے. سکھوں والا اتنا سکھوں میں نہیں ہوتا جتنا دکھوں
والا سکھوں میں ہوتا ہے اللہ تعالیٰ
عافیت دیتا ہے تو باقاعدہ تیرتی ہوئ
جسم میں اترتی چلی جاتی ہے.
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی گردن پر تلوار
ہونے کے باوجود اتنے مطمئن کہ اطمینان کو دیکھ کر بادشاہ پریشان ہوگیا کہ یہ ممکن کیسے
ہے کہ تیرے لیے سب سے سخت جلاد بلوایا ہے اور تیری گردن پر تلوار چلنے والی ہے میں
آرڈر دینے والا ہوں لیکن تلوار اور تیرے اطمینان کو دیکھ کر سمجھ سے بالا ہے کہ یہ
ممکن کیسے ہے. وہاں پر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ایک جملہ بولا کہا کہ :
اگر تیرے ہاتھ سے اللہ نے (موت) لکھی ہے تو
ساری دنیا بھی بچا لے بچا نہیں سکتی اور اگر تیرے ہاتھ سے نہیں لکھی تو پوری دنیا بھی
بلا لے زور نہیں لگا سکتی.
سو جانیں ہوں تو سو بھی اللہ کے لیے
قربان کردیں یہ ایمان اور عافیت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے.
= اللھم عافنی
فی سمعی =
پہلے پورے جسم کے بعد جب اللہ تعالیٰ جز میں لے کر آئے ہیں تو سمع کو کیوں لے کر آئے ہیں. دوسری جگہ جب نور کی بات
آئ ہے تو پہلے دل اور پھر آنکھ کا ذکر ہے. دیکھا جائے تو اصل قلب ہے.
اللھم اجعل فی قلبی نورا
میرے دل کی گہرائیوں میں نور بھر دے. تیرے نور کی جتنی روشنائیاں ہیں
میں ان ساری روشنائیوں کا پیاسا ہوں ایسا نہیں ہے کہ نور کی ایک رمق لینا چاہتا ہو
سارا نور سارے دل میں لینا چاہتا ہوں. سے Listening power.
انسان پہلے سیکھتا ہے پھر آنکھ
سے سیکھتا ہے. بعض اوقات آنکھوں
کی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور آنکھوں کے کانوں سےسنتا ہے .
{(سمع) اسم
ہے اور (ی) یائے متکلم >گرامر کا قاعدہ ہے جب اسم کی اضافت یائے متکلم یا ضمیر کی طرف ہو تو اس کا جز مراد نہیں ہوتا اس کا کل
مراد ہوتا ہے.}
.... یعنی پورے کانوں میں عافیت ہو. بعض اوقات بندے کے کان کچے کان ہیں
مکس اپ کرتا رہتا ہے. کانوں کی سماعت میں عافیت
کا آنا اتنی بڑی نعمت اور رحمت ہے کہ اس کی حد نہیں ہے.
=
بصری =
آنکھ کا مسئلہ بہت ہی دقیق اور عمیق ( باریک) زیر عور مسئلہ ہے
بیماریاں کونسی ہیں؟؟
آپ کو آپ کی آنکھوں کی دوائ قرآن کی شکل می حدیث کی شکل میں کتنی مل رہی
ہے، پوری مل رہی ہے یا نہیں؟
_ مرض
_
کینسر ٹائپ کے کونسے امراض ہیں.
آپریشن ٹائپ کے کونسے امراض ہیں. ان کی دوائ کیا ہے.
بعض اوقات بندہ کہتا ہے کہ میں کوئ غلط
چیز نہیں دیکھتا لیکن اس کے اندر مرض کینسر بنا ہوتا ہے. یہ وہی سمجھ سکتا ہے جو پوری
طرح مرض کو چیک کرے. آنکھوں کی تمنائیں آنکھوں کے اشارے بتائیں گے کہ آنکھ میں گند
کچرا آیا ہوا ہے. بعض اوقات آنکھ آنکھ تک رہتی ہے اور بعض اوقات آنکھ پورے جسم کو غلام
بنا لیتی ہے. کانوں کو دل کو متوجہ کر لیتی ہے. اور بعض اوقات آنکھ ایک ماچس کی طرح
پورے گھر کو پورے جسم کو جلا دیتی ہے.
آپ نے کوئ گھر دیکھا، گاڑی دیکھی، عورت دیکھی، کوئ کلر سکیم دیکھی آپ
کی آنکھ نے کیا کیا آپ کے اندر اثرات چھوڑ
دیے ہیں اور کتنی دیر تک رہے ہیں.
---- ایک ہے کچرے کا آنا اور دل میں بیٹھ جانا، ایک ہے کچرے کا آنا اور
داغ دانے دھبے چھوڑ جانا، ایک ہے آنا اور آنے کے بعد نہ جانا، اور ایک ہے آنا اور اس
کو خود نہ نکالنا . پھر جب خود کچرہ نکالتا چاہتا ہے تو کچرا بھی جان نہیں چھوڑتا. کسی نے مال سے تعلق لگایا، کسی نے عورت سے لگا لیا.
یہ کچرا آنکھوں کے ذریعے جسم میں آتا ہے.
= اللھم انی
اعوذبک من الکفر =
ایک ہوتا ہے خالی کافر امن پسند
کافر، اور ایک ہے کفر کا داعی کافر، ایک ہے
مرتد کافر، ظالم کافر یہ سب کفر کے انکار کی شکلیں ہیں.
کفر کے بالمقابل ہمارا انکار
ہم کیا کرتے ہیں کبھی سنن کا انکار کبھی واجب کا انکار، انہوں نے کفر
پر انکار کیا ہم نے انکار کے اور دائرے لگائے
ہوئے ہیں.
_من الکفر {ال کفر} _
یعنی اگر کفر کی سات سو سیڑھیاں ہیں. میں کفر کی پہلی سیڑھی پر بھی نہیں
چڑھنا چاہتا. کفر کے آغاز پر بھی نہیں آنا چاہتا.
= اللھم انی أعوذ بک =
{انی} جائے متکلم کے ساتھ، بندہ حاضر خدمت
ہے یا اللہ خصوصاً میں یا اللہ میری اب سے لے کر موت کے آخری سانس تک میں
حاضر ہوں. جملہ اسمیہ کی شکل میں تیرے سے پناہ چاہتا ہوں کہ تو مجھے مستقل پناہ دے
یا اللہ مجھے پناہ دے...
پھر انی سے انا پر کھڑا کرنا
ہے عافنی سے عافنا پر کھڑا کرنا ہے
---- بعض اوقات کسی کا درد بھی اپنا درد بن جاتا ہے اور بعض اوقات اپنا
درد بھی محسوس نہیں ہوتا کس قدر گیا گزرا ہے اسی کو قست قلوبکم کہتے ہیں.
لبیک انا وسعدیک
بندہ خود پیش خدمت ہے
(. "ک" محبت بھرا لفظ
ہے ہے "ک" مخاطب کا ہے کہ صرف تیرے سے پناہ چاہتا ہوں)
کفر کی سو شکلیں ہیں تو سو سے پناہ چاہتا ہوں کفر کی ہزار کی شکلیں ہیں
تو سب سے تیری پناہ چاہتا ہوں......
_ فقر _
فقر بھی اللہ تعالیٰ استغنا سے توڑ دیتا ہے
= من عذاب القبر
=
دنیا بھی مانگ لی اور آخرت بھی مانگ لی
=. لا الہ الا انت
=
~میرا یہ نظریہ ہے کہ تو دیتا
ہے
~ اور یہ بھی نظریہ ہے تیرے سوا کوئ دے ہیں نہیں سکتا اثبات میں بھی آگے
نکلنا ہے اور نفی میں بھی آگے نکلنا ہے دیکھیں اللہ رب العزت کیسے اپنے حبیب سے لفظ
نکلواتا ہے
_انت _
میں پوری محبت ہے اپنائیت والی
بات ہے جتنا لا کو باریکی میں لائیں گے انت اتنی مضبوطی سے آئے گا.
--- عافیت جب آتی ہے آپ اس قدر بلند سوچ کے مالک بن جاتے ہیں ان کیفیات کو لفظ نہیں دیے جا سکتے.
انسان کو توڑنے والی چیز
جذبات اور نظریات انسان کو توڑتے ہیں دنیا کی تکلیف اتنی ہی آتی ہے جتنی
طاقت ہے.جب پوری طرح بندہ ٹوٹ رہا ہو تو یہ دعا پڑھیں اس کا نتیجہ نہیں نتائج سامنے
آتے ہیں...
فاطر السموات والارض انت ولی فی الدنیا والآخرۃ
ساتوں آسمانوں اور ساتوں زمینوں کے رب صرف تو ہی میرا سرپرست ہے دنیا
اور آخرت میں تو ہی میرا والی وارث ہے تیرے سوا کس سے کہوں تو ہی میرا حاکم ہے. تو
ہی میر الہ ہے.
دنیا، آخرت اور معاشرے میں بھی میرا والی و وارث بن جا.
♾️ وما توفیقی الا باللہ♾️
-
- - - اللھم فقھنا فی الدین
-
- - - ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم وتب علینا انک انت التواب الرحیم
آمین
ثم آمین